counter easy hit

واقعی عمران خان مجبور تھا : سعودی عرب نے تو عمران خان کو بلیک میل کیا ہی ، مگر متحدہ عرب امارات نے کس طرح خود بھی ملائیشین سمٹ میں شرکت سے انکار کیا اور وزیراعظم پاکستان کو شرمناک بات کہہ کر انکار پر مجبور کیا ؟ ساری گیم سامنے آگئی

لاہور (ویب ڈیسک) کسی بھی قوم کی سالمیت کا انحصار اس کے داخلی اتحاد میں مضمر ہوتا ہے تو اقوام عالم میں عزت و وقار کا انحصار اس کی خود مختاری اور قیادت کے دلیرانہ فیصلوں پر ہوتا ہے۔ عمران خان اپنے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران دنیا میں اقوام کی کامیابی اور پاکستان کی

کامیاب اور لمبی خوش وخرم زندگی کا راز کیا ۔۔۔؟ 80 سال کی ازدواجی زندگی گزارنے والے جوڑے نے دنیا کو بڑے کام کی بات بتا دی

نامور کالم نگار ذوالفقار چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ناکامیوں کے اسباب بھی گنواتے رہے۔126روز کے دھرنے میں عمران خان کی ہر تقریر بلا امتیاز احتساب، انصاف، کرپشن سے پاک پاکستان سے شروع ہو کر داخلی خود مختاری اور قیادت کے فقدان پر ہی ختم ہوتی تھی۔2018ء کے انتخابات میں عوام نے تحریک انصاف کو دو نہیں ایک پاکستان اور غیر ملکی آقائوں کی بیساکھیوں سے آزاد پاکستان کے نام پر ووٹ دیا تھا۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے یوٹرن کو ایک لیڈر کی خصوصیت قرار دیتے ہوئے اپنے ہی دعوئوں اور وعدوں سے یوٹرن لینا شروع کر دیا۔ پہلے ان کوجو کشکول غلامی کا طوق نظر آتا تھا وزیر اعظم بن کر اس کو گلے میں ڈال کر آئی ایم ایف کے در پہ صدائیں لگانی شروع کر دیں۔ نواز شریف اس لئے غدار تھا کیونکہ مودی کا یار تھا مگر حکومت سنبھالتے ہی بھارتی انتخابات کے بعد مودی کے ساتھ امن و خوشحالی کے دورکے آغاز کی امید باندھ لی۔ پاکستان کے دولخت ہونے سے لے کر قرض کے نشہ کی لت کی وجہ امریکہ کو قرار دیتے تھے۔ مگر حکومت میں آئے تو جس کے سبب بیمار ہوئے تھے اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے امریکہ پہنچ گئے اور کشمیر پر ثالثی کی درخواست کر ڈالی۔ اقوام متحدہ کے فورم پر دھرنے کے کنٹینر کی طرح ایسے دھواں دار تقریر کی کہ پاکستان کے ساتھ مسلمانان عالم کے دل میں بھی امنگوں کا طوفان برپا کر دیا۔

گفتار کے غازی کا ترک صدر اردوان نے ماتھا چوما اور ملائشیا کے معمر مہاتیر محمد کو عمران کی صورت میں امت  مسلمہ کی بے باک نڈر اور مخلص قیادت نظر آئی۔ جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائن ملاقاتوں میں ہی عالم اسلام کے سافٹ امیج کو اجاگر کرنے کے لیے مشترکہ ٹی وی چینل پر اتفاق ہوا اور اسلامی دنیا کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم کی ضرورت پر بھی اتفاق ہوا ۔مہا تیر محمد نے طیب اردوان کے ساتھ مل کر اسلامی کانفرنس کی تیاری شروع تو عمران خان نے بھرپور شرکت کا عندیہ دیا مگر جب سعودی عرب نے ایران کے صدر کو دعوت دینے کو جواز بنا کر کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیاتو ہاتھی کے پائوں میں امارات کا پائوں تھا اور کا ہاتھ پاکستان کی گردن پر۔ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے سعودی عرب امارات اورچین نے پہلے 7ارب ڈالر سٹیٹ بنک میں ضمانت کے طور رکھوائے تھے جن کوبعدمیں سافٹ لون میں تبدیل کر دیا گیا۔ سعودی عرب کے ایما پر متحدہ عرب امارات نے بھی کانفرنس میں شرکت سے نہ صرف خود انکار کیا بلکہ پاکستان کو جمع رقم نکلوانے اور 40لاکھ پاکستانیوں کی جگہ بنگلہ دیش سے افرادی قوت منگوانے کی دھمکی بھی دے ڈالی اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ماضی میں یو اے ای کے ایک وزیر اعلانیہ اسی طرھ کی دھمکی پہلے بھی دے چکے تھے۔ قرض خواہوں کی دھمکی ملی تو قرض کی مئے پینے والے پاکستان کی فاقہ مستی نے رنگ دکھلانا شروع کر دیا۔ یہ ایک نازک صورت حال تھی اور پاکستان کی قیادت کا امتحان بھی۔

ہمارے وزیر اعظم کے لئے انکار امتحان بن گیا اور گفتار کے غازی نے ایک بار پھر اپنے یوٹرن کا ہنر آزما ڈالا۔ ایسا بھی نہیں کہ پاکستان پر ایسا نازک وقت پہلی بار آیا تھا ماضی میں ایسے مواقع آئے، آج جس قیادت کو عمران خان گالیاں دیتے نہیں تھکتے ۔ اسی قیادت نے پاکستان کے مفاد میں مشکل فیصلے بھی کئے ہیں۔60ء کی دہائی میں پاکستان پر چین سے تعلقات کے معاملہ پر امریکہ نے دبائو ڈالا تو ڈکٹیٹر ایوب نے جرأت انکار دکھائی، اس انکار کی قیمت ایوب کو اقتدار سے محرومی کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ دوسری بار بھٹو نے انکار کیا اور پھانسی پر جھول گیا تیسری بار ایسے ہی انکار کا امتحان میاں نواز شریف پر اس وقت آیا جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جوہری تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا تو امریکہ نے پاکستان کو 5ارب ڈالر کے عوض دھماکے نہ کرنے کا حکم دیا اس وقت میاں نواز شریف نے قومی مفاد میں انکار کیا اور اس کی پاداش میں اٹک جیل جا پہنچے۔ عالمی سازشوں کے جال میں پھنسے نواز شریف کو سزا سے سعودی عرب نے بچانے کے علاوہ اٹک جیل سے نکال کر شریف خاندان کی 8سال تک میزبانی کی۔ وقت نے ایک بار پھر میاں نواز شریف کی جرات انکار کا امتحان اس وقت لیا جب سعودی عرب نے پاکستان سے یمن جنگ میں شمولیت کے لئے فوجی دستے طلب کئے۔

اس وقت کی عسکری قیادت تو اسلامی فوج کی سربراہی کے لالی پاپ پر مطمئن ہو چکی تھی مگر نواز شریف نے ایک بار پھر قومی مفاد میں انکار کر کے اپنے سنگھاسن کو خودٹھوکر مارنے کا اہتمام کر دیا اور انجام پھر جیل اور اس بار مدد کو بھی کوئی آنے پر آمادہ نہ تھا۔ پاکستان کی تاریخ اسی طرح کے انکار اور انجام کی داستان ہے مگر ہمارے گفتار کے غازی پر جب وقت انکار آیا تو انہوں نے انکار کے بجائے سربسجود ہونے اور اطاعت کے یوٹرن میں عافیت جانی۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے ماضی کے یوٹرن سے تحریک انصاف اور وزیر اعظم کی قیادت پر پاکستانی ہنستے تھے مگر خاں کے خارجی محاذ پر یوٹرن سے پاکستان پر دنیا ہنس رہی ہے۔ قوم کو امید تھی کہ وزیر اعظم پاکستان کو کسی خوشحالی اور ترقی کی منزل پر لے کر جائیں گے مگر اقتدار کے پہلے 17ماہ کی کاررکردگی اگلے سوا تین سال کی خبردے رہی ہے کہ بقول شاعر حادثہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے عکس اس کا مرے آئینہ ادراک میں ہے نوجوانوں کو دلفریب نعروں اور تاریخ کے اسباق پڑھانے والے، اور سامراج کی سوچ کو سمجھنے کے دعویدار عمران خاں اپنے اقتدارکے دو برسوں میں پاکستان کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ پاکستانی گھر کے رہے نہ گھات کے۔ کشمیر کو شہہ رگ قرار دینے والی پاکستان کی قیادت آج کنٹرول لائن کے پار دیکھنے کو پاکستان دشمنی قرار دے چکی ہے تو کشکول کو غلامی کا طوق کہنے والے آج اسی کشکول کو گلے میں ڈال کردر در پہ بھیک مانگ رہے ہیں۔ تحریک انصاف پاکستان کی اس حالت کا ذمہ دار بھلے ہی سابق حکمرانوں کی کرپشن کو قرار دے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ گفتار کے غازیوںں کی حالت کے بارے میں علامہ اقبال کہہ گئے ہیں۔ یہ نادان گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا۔

PRIME MINISTER, IMRAN KHAN, WAS, FORCED, TO, REFUSE, TO, PARTICIPTE, IN, KUALALAMPUR, SUMMIT, NEW, FACTS, REVEALED, BY, ZULIFQAR SHEIKH'S, COLUMN

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website