تحریر : عبدالرزاق
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب نے دوحہ قطر میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوے فرمایا ہے کہ آج سے تین سال قبل ملک کوجو حالات درپیش تھے ان میں نمایاں تبدیلی آ چکی ہے اور پاکستان شاہراہ ترقی پر گامزن ہو چکا ہے۔ میاں صاحب نے اپنے خطاب کے دوران حاضرین محفل پریہ بھی واضح کیا کہ قطر سے ایل این جی کا معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان میں سستی بجلی پیدا ہو گی جس سے بند کارخانے چل پڑیں گے۔دوران خطاب میاں صاحب نے حاضرین کو اقتصادی راہداری منصوبے کے ثمرات واضح کرنے کے علاوہ اپنے سابقہ دور حکومت کے دیگر منصوبوں پر بھی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ اگر ان کے دس سال ضائع نہ کیے جاتے تو پاکستان ترقی کے میدان میں کئی منازل طے کر چکا ہوتا۔
اس خطاب میں میاں صاحب نے پی آئی اے کا تذکرہ بھی کیا اور اس ضمن میں اپنا عزم دہرایا کہ پی آئی اے کو از سر نو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔میاں صاحب نے اس موقع پر یہ عہد بھی کیا کہ وہ پاکستان کوخوشحالی کی راہ پر گامزن کر کے ہی دم لیں گے۔میاں نواز شریف صاحب کے وعدے اور دعوے اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن پاکستانی عوام ان سے گلے شکوے کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے جو ان کی خدمت میں بصد احترام عرض ہیں۔
میاں صاحب دو ہزارتیرہ کے انتخابات کی گہما گہمی تھی۔آپ ملک کے کونے کونے میں عوام سے خطاب میں مشغول تھے۔آپ کا دعویٰ تھا کہ بر سر اقتدار آ کر ملک سے اندھیرے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور کر دیں گے ا اور لوڈشیڈنگ کا عذاب تو قصہ پارینہ بن جائے گا ۔ وہ کشکول جسے اٹھا کرہم ملک ملک قرضے اور امداد مانگنے کے لیے جاتے ہیں ٹھوکر مار کر توڑ دیا جائے گا۔اور ارض وطن کو خود دار،خود کفیل اور خوشحال پاکستان کی پوشاک پہنا کر اک نیا جنم دیا جائے گا۔مستقبل سے مایوس نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع میسر ہوں گے۔صنعت کا پہیہ برق رفتاری سے رواں دواں ہو گا۔ تعلیم کا معیار مثالی ہو گا ۔صحت عامہ کے مسائل کا تدارک حکومت کی ترجیح اول ہو گا۔غریب کی جھونپڑی میں بھی خوشحالی کا دیا روشن ہو گا ۔عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بلند ہو گااور سبز پاسپورٹ کی عزت و آبرو میں چار چاند لگ جائیں گے۔پاکستانیوں کو دنیا بھر میں ہا تھوں ہاتھ لیا جائے گا۔کرپشن کے جن کو قابو کر کے بوتل میں بند کر دیا جائے گا۔پولیس کے نظام کو از سر نو ترتیب دے کر اصلاحات کا لباس زیب تن کروا کر عوام کی حقیقی خدمت گا ر بنایا جائے گا۔
ملک بھر میں ماڈل تھانے عوامی خدمت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہوں گے۔ پولیس ظالم کا ساتھ دینے کی بجائے مظلوم کی ہمنوا ہو گی اور اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے افسران و اہلکا ر وں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔اور یوں پولیس اپنے ماضی کے بر عکس اک نئے پیرہن کے سنگ جدید خطوط پر استوار ہو کر عوامی خدمت پر مامور ہو گی۔عوام کی زمینوں اور پلاٹوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف قانون فی الفور حرکت میں آئے گاجبکہ زمین کے کھاتوں کو کمپیوٹرائز کر دیا جائے گا تا کہ عوام کو پٹواری کلچر سے نجات مل سکے۔قانون کی حکمرانی،آئین کی بالادستی اور انصاف کا بول بالا ہو گا۔کسانوں کے لیے مراعات کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ کسانوں کو بیج اور کھاد سستے مہیا ہوں گے اور نتیجے کے طور پر خوشحالی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔
نئے ڈیموں کا جال بچھایا جائے گا اور زراعت پر خصوصی توجہ مرکوز ہو گی۔افراط زر کو کنٹرول میں رکھیں گے۔ مہنگائی کے جن پر قابو پاکر عوام کو خوشخبری دیں گے۔ذخیرہ اندوزوں، ملاوٹ کرنے والوں اور نا جائز منافع خوروں سے سختی سے نمٹا جائے گا ۔ پاکستان کے وہ ادارے جو ناگفتہ بہ حال ہیں ان کو سہارا دے کر از سر نو منافع بخش بنایا جائے گا جن میں پی آئی اے۔سٹیل ملز اور ریلوے سر فہرست ہیں۔اور آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ کے پاس تجربہ کار ٹیم موجود ہے جو وطن عزیز کے اداروں کے تن مردہ میں نئی روح پھونک دے گی۔حکومت اپنے اخراجات محدود رکھے گی۔ وزیر اعظم۔ وزیر اورمشیر سب سادگی کا اعلیٰ نمونہ ثابت ہوں گے ۔جناب وزیر اعظم صاحب آپ نے یہ وعدے اس قدر پر اعتماد لہجے میں کیے تھے کہ عوام اپنی آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب سجا بیٹھی تھی۔اب جائزہ لیتے ہیں آپ کے کتنے وعدے ایفا ہوے اور قوم کی زندگی میں کیا تبدیلی رونما ہوئی۔
کیا عوام کی جان بجلی کی طویل بندش کے عذاب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئی۔ کیا گیس کے نئے ذخائر دریافت ہو گئے اور گیس کا بحران ٹل گیا۔کیا کرپشن کا بے قابو جن قید میں آ گیا۔کیا پولیس کی تربیت جدید خطوط پر ہوئی اور اس کی عوامی خدمت قابل ذکر ہے۔ وہ عوام دوست بن گئی۔غریب کی حقیقی ہمدرد، غم خوار اور محافظ ہے اور مجرموں کی پشت پناہی سے تائب ہو چکی ہے۔ کیا عوام پٹوار خانوں کے کلچر سے آزاد ہو گئے۔کیا قبضہ مافیا کا قع قمع ہو گیا اور اب لوگوں کی جائیداد اور زمینوں پر قبضہ نہیں ہوتا۔کیا ہسپتالوں کی حالت پہلے سے بہتر ہے ۔ مریض مطمن ہیں۔ ڈاکٹر دل و جان سے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور ڈیوٹی کے پابند ہیں۔ہسپتالوں میں صفائی کے انتظام سے لے کر مریض کی دیکھ بھال تک ہر مرحلہ قابل تعریف ہے۔کیا غریب کا بچہ محنت مزدوری کرنے کے بجائے سکول کا رخ کر رہا ہے اور غریب والدین بچوں کی تعلیم سے مطمن ہیں ۔ کیا دہرے معیار تعلیم کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
غریب اور امیر کا بچہ ایک ہی چھت تلے تعلیم حاصل کر رہا ہے ۔ کیا غریب کی جھونپڑی میں خوشحالی کا سورج طلوع ہو چکا ہے۔کیا کسانوں اور ہاریوں کے شب و روز مطمن گزر رہے ہیں۔کیا ہماری فصلوں کی پیداوار مثالی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور ہماری اجناس کی برآمدات میں نمایاں اور قابل قدر اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کیا چشم فلک نے وزیروں اور مشیروں کے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی دیکھی۔ کیا مقتدر حلقوں کے شاہی پروٹوکول پر قدغن لگی۔ کیا طرز حکومت میں کوئی منفرد موڑ دیکھنے کو ملا۔کیا غیر ملکی قرضوں سے لبا لب کشکول ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔کیا ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانے کی روش ترک کر دی گئی۔
کیا امریکہ کی کاسہ لیسی سے جان چھوٹ گئی۔ کیا ہم حسب منشا اپنی معاشی پالیسیاں مرتب کرنے کے قابل ہوے۔ کیا معاشی میدان میں ایشین ٹائیگر تو بننا درکنار خودکفیل بھی ہو سکے۔کیا اپنے مستقبل سے مایوس نوجوانوں کے روزگار کے لیے مذید مواقع تخلیق کرنے میں کامیاب رہے۔ کیا عوام کی حالت بدل گئی۔ سچ تو یہ ہے محترم وزیراعظم صاحب کہ سب کچھ جوں کا توں ہے کچھ بھی نہیں بدلا۔ آپ بدلے نہ آپ کے وزیر مشیر بدلے اور نہ ہی عوام کی حالت بدلی۔ البتہ ایک تبدیلی یہ دیکھنے میں ضرور آئی پہلے صرف امریکہ ہمیں آنکھیں دکھاتا تھا اب اس فہرست میں انڈیا کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
تحریر : عبدالرزاق