تحریر : اختر سردار چودھری
یوں تو اس موضوع پر لکھنے والے کو بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے بکا ئو بھی کہا جا تا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے صحافی برائے فروخت بھی ہوتے ہیں ،اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف ملک میں ایک ہوا چل رہی ہے اس کی جو وجوہات ہیں اس کالم کا یہ موضوع نہیں ہے اور نہ ہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس جیسا کالم لکھ سکتا ہوں کہ ایک بات مخالف اور دوسری حق میں لکھوںمیں جن اچھے کاموں کا ذکر کر رہا ہوں اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بھی جو مخالف ہیں انہوں نے مخالف ہی رہنا تھا یہ کام انہوں نے اس بات سے ہٹ کر ملکی اور عوامی مفاد میں کیے مثلاامریکی صدر بارک اوباما نے چند دن پہلے وزیر اعظم نواز شریف کو فون کیا تو وزیر اعظم نے ان کو کہا کہ وہ بھارتی قیادت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات کریں تا کہ مسئلہ کشمیر کے جلد حل سے ایشاء میں پائیدار امن ،استحکام اور اقتصادی تعاون ممکن ہو سکے پاکستان نے دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کے لیے دروازے کھلے رکھے ہیں۔
وزیر اعظم نے ایک بار پھر کشمیر پر بات کر کے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ بھارت سے اچھے تعلقات تو ضرور چاہتے ہیں لیکن بنیادی مسائل کو پس پشت ڈال کر نہیں بلکہ اصولی موقف پر دو طرفہ برابری کی سطح پر ان کی یہ بات تعریف کی مستحق ہے۔ اسی طرح چند دن پہلے سارک کانفرنس میں وزریر اعظم کا بھارت کے بارے میں رویہ بھی بہت اچھا تھا کہ خاص کر ان کا یہ بیان کہ بھارت نے چونکہ پاکستان سے مذاکرات خود ختم کیے ہیں اس لیے اب وہ مذاکرات کے لیے خود ہی پہل کرے گیند بھارت کی کورٹ میں ہے۔ وزیر اعظم کا سیاسی بحران حل کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف کو مسئلہ حل کرنے کا کہنابھی ایک بہت اچھا قدم تھا جو بعض وجوہات کی بنا پر پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکااور مسئلہ آج بھی یوں کا توں ہے اسی طرح عدلیہ کو کمیشن بنانے کے لیے خط لکھنا جو اپنا کام شروع نہ کر سکا اس کے جو بھی اسباب ہیں وہ الگ بات ہے ۔بلکہ یہ عدالت کا کام ہے کہ ا ب وہ کیا کرتی ہے۔
تیسرا کام جو موجودہ سیاسی بحران کے حل کے وزیر اعظم نے کیا وہ ہے ان کا صبر و تحمل ہے حالانکہ پارلیمنٹ کی تقریبا سبھی جماعتیں سوائے چند ایک کے اس حق میں تھیں کہ احتجاج کو بذریعہ طاقت ختم کر دیا جائے ۔اس سے بہت سی معصوم جانیں جاتیں جن کو وزیراعظم نے اپنے صبر و تحمل سے قربان نہیں کیا اور پاکستان ایک بہت بڑے حادثے سے بچ گیا اور بہت حد تک حکومت بھی اپنے پا ئو ں پر دوبارہ کھڑی ہو رہی ہے ۔اسی طرح جب ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا دھرنا ختم کیا تو وزیر اعظم نے اپنی پارٹی سے کہاکہ طاہر القادری کی کردار کشی نہ کی جائے ہم سمجھتے ہیں اگر ڈیل نہیں ہوئی جو کہ ڈاکٹر طاہر القادری بار بار کہ رہے ہیں تو ایسا کہنا وزیر اعظم کی اعلی ظرفی ہے جس کی قدر کی جانی چاہیے۔
چین کا دورہ وزیر اعظم نے کر کے چین سے 45 ارب ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے جو معاہدہ کیا وہ بھی قابل تعریف ہے۔ اس بارے میں اخبارات میں لکھا تو بہت گیا لیکن اصل بات بہت کم لکھی گئی کہ یہ معاہدے نہ تو قرض ہیں نہ ہی ان پر سود دینا ہو گا بلکہ یہ چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا پہلی مرتبہ سرمایہ کاری کرنے کا جو طریقہ اور شرائط طے کی گئیں ہیں وہ منفرد ترین ہیں مختصر اس کو ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ چین توانائی کے حل کے لیے جو سرمایہ کاری کرے گا وہ براہ راست سرمایہ کاری ہو گی چین کی کمپنیاں بجلی پاکستان کے وسائل استعمال کر کے بنائیں گی ان سے پاکستان خریدے گا 2017 تک چین کوئلہ،ہوا،سولراور ہائیڈروتوانائی کے 15 ارب سے زائد کے منصوبے مکمل ہوں گے جس سے 6 ہزار ایک سو بیس میگا واٹ بجلی نیشنل گریڈ کو مل جائے گی جس سے کافی حد تک توانائی بحران کا خاتمہ ہو سکے گا۔
اس منصوبے کی تکمیل سے فی یونٹ بجلی عوام کو کتنے میں پڑے گی اس کا اس پورے منصوبے میں کہیں ذکر نہیں ہے یا میرے علم میں نہ آ سکا ہے اگر اس سے بجلی سستی عوام کو دستیاب ہوئی تو آنے والے وقت میں یہ منصوبہ پاکستان کے لیے بہت مفید ہو گا وزیر اعظم کو اس بارے میں عوام کو بریفنگ دینی چاہیے کہ کب تک کتنی اور کس ریٹ پر بجلی اس منصوبے سے تیار ہو کر عوام کو دستیاب ہو گی۔اسی طرح پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرنا بھی ایک احسن قدم ہے لیکن اس کا ابھی تک عوام کو فائدہ ملنا شروع نہیں ہوا ۔اگر پٹرول کی قیمت بڑھے جو کہ اب تک بڑھتی ہی رہی تو فورا اشیائے خوردو نوش اور دیگر اشیا کی قیمت بڑھ جاتیں ہیں لیکن پٹرول کی قیمت میں کمی ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی خاص ریلیف عوام کو نہیں مل سکا ۔نہ ہی کرایوں میں کمی ہوئی اور نہ ہی دیگر اشیائے ضرورت میں اس پر حکومت کا اچھے کام کا بھی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔لیکن پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرنا اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔
ضرب عضب کی حمایت کر کے وزریر اعظم نے بہت اچھا قدم اٹھایا ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے اس سے ملک میں شدت پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا ۔بجلی کے زائد بلوں کی واپسی بھی ایک ایسا ہی کام ہے میں نے بہت سے افراد کو اس کی تعریف کرتے سنا ہے ۔اس کے علاوہ دانش سکول سسٹم کا قیام جس سے بہت سے بے روزگار افراد کو روزگار ملا اور ہزاروں بچے اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ آشیانہ ہاوسنگ سکیم ۔طلبا کے اندر مقابلہ کا رحجان پیدا کرنے کے لیے لیپ ٹاپ سکیم شروع کی گئی۔بے روزگار سکیم جسے اپنا روزگار کا نام دیا گیا اس سے بہت سے بے روزگار اپنا کام شروع کر سکیں گے ، نوجوانوں کوقرض بلا سود دینا بھی حکومت کے اچھے اقدامات میں سے ایک ہے۔ سرکاری نوکریوں سے پابندی ہٹانا ۔سیلاب متاثرین ،آئی ڈی پیز کی بحالی پر فوری کام جو مسلسل جاری ہے۔ ریلوے اور پی آئی اے کے اداروں کا فائدے میں جانا یا ان کے نقصان میں کمی ہو جانا۔موٹر وے پولیس جس کی تعریف سبھی کر رہے ہیں ان کی مجموعی طور پر کارکردگی اچھی ہے ۔اس کے علاوہ میٹرو پراجیکٹ وغیرہ ایسے اچھے کام ہیں جن پر وزیر اعظم کی تعریف کی جانی چاہیے۔
تحریر : اختر سردار چودھری