تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
پہلے CNG بند پھر گھریلو گیس کی لوڈشیڈنگ اور اب پٹرول بھی بند، گویا پوری زندگی ہی بند ۔اِن ”بندشوں”نے حالت یہ کردی ہے کہ” نے ہاتھ باگ پرہے نہ پاہے رکاب میں”۔ دو حکومتی وزراء (جن کا پٹرولیم مصنوعات سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں)نے برملاکہہ دیاکہ یہ حکومتی کو تاہی ہے جبکہ اپوزیشن نے اسے نااہلی قراردیا البتہ” ذمہ داروں”نے بڑے بھولپن سے کہا کہ اُن کاتو سرے سے کوئی قصورہی نہیں ۔وزیرِ پٹرولیم شاہدخاقان عباسی نے فرمایا کہ پٹرول تواُتنا ہی آرہاہے جتنا پہلے آتاتھا لیکن سستا ہونے کی وجہ سے اِس کی کھپت بہت بڑھ گئی ہے ۔وزیرِ پٹرولیم کے اِس بیان سے ہمیں مکمل اتفاق ہے کیونکہ ہم ”بقلم خود”اِسکا مشاہدہ کرچکے ہیں
۔ہم نے دیکھاکہ ایک شخص بڑی سی گاڑی میں واپڈا ٹاؤن کے گول چکرپر گول گول گھوم رہاتھا ۔اُس نے جب بیس چکر پورے کیے تو ہمارے صبرکا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ہم نے اُسے روک کر گھومنے کی وجہ پوچھی تواُس نے جواب دیاکہ بی بی دُنیاچونکہ گول ہے اِس لیے میں چشمِ تصور میں دُنیا کے گرد گھوم رہاہوں جسکی واحدوجہ یہ ہے کہ پٹرول سستا ہوگیاہے اِس لیے دُنیا گھومنے میںہرج ہی کیاہے ۔ہم نے اُس کی اِس سوچ پر لعنت بھیجی اور گھر جانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی ہمارے ذہن میں اچانک خیال آیا کہ ذرا دیکھیں توسہی کہ اُس شخص کو گول گول گھومنے میں کیا مزہ آرہا تھا۔ پہلے ہی چکرپر ہمیں بھی بہت مزہ آیا اورہم نے سوچا کہ پٹرول تو سستا ہوہی گیاہے اور ہماری گاڑی کی ٹینکی فُل اِس لیے ایک چکراور سہی ۔دوسرے کے بعد تیسرا پھر چوتھا اور آخرکار ہوایوں کہ وہ شخص آگے آگے اور ہم اُس کے پیچھے گول گول گھومتے رہے۔
ہمیں تو پٹرول کے بحران کی یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ ہم”ایویں خوامخواہ” ہی پٹرول ضائع کررہے ہیںاور الزام بیچارے شاہد خاقان عباسی پر۔ وزیرِاعظم صاحب جب سعودی عرب کے دورے سے واپس آئے تو اُنہیں پتہ چلا کہ پنجاب میں توقیامتِ صغرابپاہے اور لاہوریے اب”فوڈسٹریٹوں” کی بجائے پٹرول پمپوں پرپائے جاتے ہیں ۔اُنہوںنے چار ذمہ داران کوتو پہلے ”ہَلّے”میںہی ”نُکرے”لگادیا اور باقیوںکا اجلاس طلب کرلیا ۔اُنہوںنے صاف کہہ دیا” پٹرول بحران سے حکومت کی سبکی ہوئی اور وزراء سمیت جوبھی کوئی اِس کاذمہ دار ہوا اُس کو نہیں چھوڑا جائے گا ،ہر ذمہ دارکے خلاف کارروائی ہوگی” ۔شنیدہ ے کہ اجلاس میں خوب گرماگرمی ہوئی اور وزراء ایک دوسرے پرالزام تراشیاں کرتے رہے۔
اجلاس کے بعد وزیرِخزانہ جناب اسحاق ڈارنے دورکی کوڑی لاتے ہوئے کہا کہ تیل کابحران دراصل حکومت کے خلاف سازش ہے اوروزارتِ خزانہ کسی بھی طورپر تیل بحران کی ذمہ دار نہیں ۔اسحاق ڈارصاحب نے یہ نہیں بتلایا کہ یہ سازش امریکہ نے کی ہے یاانڈیا نے ،مُلّا فضل اللہ پنجاب کا ساراپ ٹرول پی گیا یا داعش نے پٹرول کے کنٹینر اغواء کرلیے۔ہوسکتا ہے کہ یہ سازش تحریکِ انصاف نے شیخ رشید کی لال حویلی میں بیٹھ کرتیار کی ہو کیونکہ اب صرف شیخ رشیدہی ہیں جو کپتان صاحب کو باربار شہروں کو بند کرنے کے لیے اکسارہے ہیں ۔وہ تو اللہ بھلاکرے ریحام خاںکا جس سے شادی کے بعدخاںصاحب کا غصّہ ”برفیلہ” ہو چکاہے اور اُن کا پلان ڈی اب تخریبی نہیں ، تھوڑا تھوڑا تعمیری محسوس ہونے لگا ہے۔
شیریں مزاری کہتی ہیںکہ تحریکِ انصاف کوشہربند کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیںآئی کیونکہ حکومت نے خودہی سارے شہربند کردیئے ۔اُن کاکہنا بجا لیکن حقیقت یہی ہے کہ نوازحکومت کا ایجنڈابھی وہی ہے جو تحریکِ انصاف کا۔ ابھی دودن پہلے محترم عمران خاںنے کہاتھا کہ وہ خیبرپختونخوا کے شہروں میں صفائی کروا رہے ہیں۔ سونامیے یہ توجانتے ہی ہوںگے کہ دھوئیں سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور لاہور میں تو اتنی زیادہ ٹریفک ہے کہ صرف آلودگی ہی آلودگی نظرآتی ہے ”ماحول”کہیںنظر ہی نہیںآتا ۔اگر دس بارہ دن ٹریفک نہیں چلے گی تو ماحولیاتی آلودگی یکسرختم ہوجائے گی ،فضائیں آکسیجن سے بھرجائیں گی اور لاہور یے تندرست وتوانا ۔اگر تحریکِ انصاف پشاور میں صفائی کروا سکتی ہے توہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ لاہور کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کریں۔کپتان صاحب کوجتنا پشاورعزیزہے ،میاں برادران کو لاہوراُس سے کہیں زیادہ عزیز۔ اُنہوں نے خود بدنامی مول لے لی لیکن لاہوریوں کی صحت کا خیال رکھا ۔
پٹرول بحران کی ایک وجہ شادیوں کی بھرمار بھی ہوسکتی ہے ۔آجکل شادیوں کا موسم ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ شادیوں میں پٹرول کا بے تحاشہ استعمال ہوتاہے ۔ایک توہماری قوم کو شادیوں کا شوق ہی بہت ہے ،آبادی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے لیکن یہ شادی پہ شادی ”کھڑکائے” جارہے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے سردار ذوالفقار کھوسہ نے عمرکے اُس حصّے میں شادی رچالی جب اُن کے اللہ اللہ کرنے کے دن تھے پھر عمران خاںبھی”ابھی تو میں جواں ہوں”کانعرہ لگاتے ہوئے ریحام خاں کے ہولیے اِس لیے ہو سکتا ہے کہ حکومت نے سوچا ہو کہ آبادی پرکنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ شادیوں کے موسم میں پٹرول نایاب کردیا جائے ۔”آم کے آم ،گٹھلیوں کے دام”کے مصداق اِس کافائدہ یہ ہوگا کہ شادیاں کم ہونگی ،آبادی پر کنٹرول ہوگا اور لوگوں کو بچت کی عادت بھی پڑجائے گی۔
اگردیکھا جائے تو اِس میںبھی ہماری ”مہربان”حکومت عوام ہی کابھلا سوچ رہی ہے لیکن عوام ”ایویں خوامخواہ” گونوازگو کے نعرے لگارہے ہیں ۔خادمِ اعلیٰ نے انہی نعروں سے تنگ آکر لاہور میں فوری طورپر CNG سٹیشن کھولنے کا مطالبہ کردیا ۔کچھ CNG سٹیشن کھلے بھی لیکن پھربند ہوگئے کیونکہ ایک توسٹیشن مالکان دودنوں کے لیے سٹیشن کھولنے کوتیار ہی نہیںتھے اور دوسرے CNG تو تبھی ملتی جب بجلی ہوتی اور بجلی تواپنے خواجہ صاحب سیالکوٹی کی مہربانی سے کسی حسینۂ دِل نواز کی طرح کبھی کبھی جھلک دکھلاتی ہے۔
میرے میاں نے جب سے بھائی عطاالحق قاسمی کا کالم پڑھاہے ،وہ متواتر سوچ رہے ہیں کہ گاڑی بیچ کرایک تانگہ خریدلیں اورپھر اُس میںبیٹھ کر پورے لاہورکی مفت سیر کرتے ہوئے یہ گاتے پھریں کہ”تانگہ لاہوری میرا،گھوڑا پشوری میرا۔۔۔” لیکن ہمیں اِس پر اعتراض ہے کیونکہ ایک تو تانگہ فیروز پور روڈپر جانہیں سکتا اور لاہور میں نئی چیزتو خادمِ اعلیٰ کی مہربانی سے صرف فیروزپور روڈ ہی ہے جس کی بھول بھلیوں میں گُم ہوکر کئی لوگ تو باقاعدہ خودکشی کے لیے تیارہوجاتے ہیں اوردوسرے تانگہ خریدنے میںقباحت یہ ہے کہ ڈرائیور تو گھوڑے کوچارہ ڈالے گانہیں اور میرے میاں دنیا جہاں میں سب سے زیادہ سست اور کاہل الوجود اِس لیے ظاہر ہے کہ گھوڑے کوچارہ بھی مجھے ہی ڈالنا پڑے گا۔اسی بنا پر میں نے تانگہ خریدنے والی نامعقول تجویز کو”ویٹو”کر دیا ۔پھر بھی اگر میرے میاں بضد رہے تو مجھے لازماََ حقوقِ نسواں کی کسی ایسی NGO سے رابطہ کرناپڑے گا جو تاحال حکومتی”چھاپوں”سے بچی ہوئی ہو۔
تحریر : پروفیسر مظہر