تہران: وزیراعظم پاکستان عمران خان نے دورہ ایران کے موقع پر صدر حسن روحانی سے ملاقات کی۔ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے وزارت صحت کے حکام نے صحت کے شعبے میں طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے تعاون کے اعلامیے پر دستخط کیے۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ اس ملاقات کے بعد ہم اپنے باہمی مفادات کو مزید فروغ دے سکیں گے۔انہوں نے بتایا کہ سب سے اہم معاملہ جو گفتگو میں زیرِ غور آیا وہ یہ کہ دونوں ممالک برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کو مستحکم کریں گے اور دونوں ممالک کے تعلقات پر کسی تیسرے ملک کو اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ایرانی صدر نے بتایا کہ ملاقات میں سرحدی معاملات پر بھی گفتگو کی گئی اور سرحدی محافظین اور سرحد کی حفاظت کے لیے جوائنٹ ریپڈ ری ایکشن فورس کے قیام پر بھی بات چیت ہوئی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر بھی غور کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت پاکستان کی تیل اور گیس ضرورت پوری کرنے کے لیے تیار ہے اور اس ضمن میں پاکستانی سرحد کے ساتھ پائپ لائن کی تعمیر کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے گئے ہیں انہوں نے بتایا کہ ایران پاکستان کے لیے بجلی کی برآمدات 10 گنا تک بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اقتصادی تعلقات کے سلسلے میں بارٹر کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق ہوا ہے تا کہ دونوں ممالک کی ضروریات کے پیشِ نظر اشیا اور دیگر چیزوں کا تبادلہ کیا جاسکے۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیراعظم کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے کے لیے اہم موڑ ثابت ہوگا اس کے ساتھ انہوں نے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے گوادر اور چا بہار بندرگاہ کے درمیان لنک قائم کرنے میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات میں علاقائی اور خطے کی سلامتی کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی اور افغان تنازع کے حل پر بھی زور دیا گیا امریکا کی جانب سے پاسدارانِ انقلاب اور گولان ہائیٹس پر اختیار کیے گئے موقف پر بھی گفتگو ہوئی۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ترکی ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت اچھے ہیں جنہیں مزید فروغ دینے اور تینوں ممالک کے درمیان ریلوے کا نظام قائم کرنے پر بھی خصوصی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ کسی بھی فوجی اتحاد حصہ نہیں بنے گے اور دونوں ممالک خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی پرعزم ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں تعاون کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا کہ دونوں ممالک میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے، جس میں 14 سیکیورٹی اہلکاروں کی جان گئی، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات دونوں ممالک کے تعلقات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پوری سیاسی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان میں کسی بھی عسکری گروہ کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے خلاف پاکستانی سرزمین کا استعمال کرنے دیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں فریقین نے افغانستان میں جاری تنازعات کے پرامن حل میں مدد فراہم کرنے کے لیے تعاون کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں جاری مظالم کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس طویل تنازع کا عسکری حل ممکن نہیں اور صرف سیاسی تصفیے کے ذریعے ہی مسئلہ کشمیر کو حل کیا جا سکتا ہے۔وزیراعظم عمران خان ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات کے لیے دارالحکومت تہران میں قائم صدارتی محل سعد آباد پیلس پہنچے جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔
ملاقات میں دونوں سربراہان نے باہمی تعلقات اور علاقائی امور پر بات چیت کی اس کے ساتھ انہوں نے مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔اس قبل وزیراعظم کے پہنچنے پر استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جس میں میں دونوں ممالک کے ترانے بجائے گئے اور وزیراعظم عمران خان نے گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا۔ایران کے صدر حسن روحانی نے وزیراعظم اور ان کے وفد کا استقبال کیا اور ایرانی کابینہ کے اراکین نے بھی وزیراعظم عمران خان سے مصافحہ کیا۔ خیال رہے وزیراعظم گزشتہ روز 2 روزہ سرکاری دورے پر ایران پہنچے تھے جہاں ان کا استقبال وزیر صحت ڈاکٹر سعید نمکی نے کیا تھا۔وزیراعظم نے تہران پہنچنے سے قبل مشہد میں مختصر ٹھہراؤ کیا تھا جہاں صوبہ خراسان رضوی کے گورنر علی رضا حسینی نے عمران خان کا استقبال کیا تھا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے اپنے وفد کے ہمراہ حضرت امام رضا کے مزار سمیت دیگر مقدس مقامات کا دورہ بھی کیا تھا۔وزارت عظمیٰ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری، وزیر بحری امور سید علی حیدر زیدی، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم سید ذوالفقار عباس بخاری، خصوصی معاون برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ظفر اللہ مرزا اور خصوصی معاون برائے پیٹرولیم ندیم بابر بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔2018 میں انتخابات کے نتیجے میں منصب سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم کا ایران کا یہ پہلا دورہ ہے جو پاکستان اور ایران کے تعلقات کے 70 سال مکمل ہونے کے موقع پر کیا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات کے درمیان سرحد پر سیکیورٹی کی صورتحال کے باعث کبھی کبھی تلخی ہوجاتی ہے۔تاہم نومبر 2017 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ ایران سے ان تعلقات میں خوشگوار دور کا آغاز ہوا لیکن وہ بھی زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا۔اور حال ہی میں بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں ہونے والے واقعے کے سبب پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات میں سرحدی حصے پر سیکیورٹی کے مسائل کے پیشِ نظر سرد مہری ہے۔وزیراعظم کے دورے سے ایک روز قبل پاکستان نے بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں دہشت گردی کے نتیجے میں 14 سیکیورٹی اہلکاروں کے قتل پر ایران سے احتجاج کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں احتجاجی مراسلہ اسلام آباد میں قائم ایرانی سفارتخانے کو بھیجا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے پہلے بھی ایران سے کئی مرتبہ مطالبہ کیا جاچکا ہے۔سفارتی ذرائع کے مطابق تہران میں وزیراعظم کے مذاکراتی ایجنڈے میں بارڈر سیکیورٹی کے مسائل سر فہرست رہے۔