وزیراعظم عمران خان نے اچانک سرگودھا، خوشاب اور تلہ گنگ کے ہسپتالوں اور ایک تھانے کا دورہ کر کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور ہسپتال و تھانے پنجاب حکومت کے اختیارات میں آتے ہیں،صوبے کے وزیراعلیٰ کو بتائے بغیر وزیراعظم عمران خان نے تین شہروں کا جو اچانک طوفانی دورہ کیا ہے، وہ سندھ کا کِیا ہوتا تو پیپلزپارٹی نے اسے صوبائی خود مختاری کے خلاف قرار دے کر احتجاج کرنا تھا،مگر عثمان بزدار تو یہ احتجاج بھی نہیں کر سکتے، بلکہ انہیں تو فکر ہو گئی ہو گی کہ اگر وزیراعظم نے اِسی طرح چھاپے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا تو سارا نزلہ انہی پر گرے گا،کیونکہ صوبے کے حاکم اعلیٰ وہی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ وزیراعظم نے صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لئے خود دوروں کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ان دوروں کے بارے میں کسی کو اطلاع نہیں دی جائے گی، وہ خود اچانک فیصلہ کریں گے اور موقع پر پہنچ جائیں گے۔ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ وزیراعظم سٹیزن پورٹل میں شکایات کا جائزہ لے کر دوروں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ویسے تو یہ بڑا اچھا اقدام ہے، لیکن یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ وزیراعظم صوبے کے وزیراعلیٰ کو بھی بغیر بتائے یہ دورے کر رہے ہیں، جس سے انتہائی بالائی سطح پر ایک سنسنی کی لہر دوڑ گئی ہے۔اگر صوبے میں کسی پبلک ادارے کی صورتِ حال خراب ملتی ہے تو اُس کا جوابدہ صوبے کا وزیراعلیٰ ہی قرار پائے گا تو متعلقہ محکمے کا سیکرٹری یا آئی جی کو بھی جواب دینا پڑے گا۔یہ گویا تھوڑی سی آگے کی حکمت ِ عملی ہے۔اس سے پہلے بھی دورے تو ہوتے رہے ہیں، مگر اطلاع دے کر اور صوبے کے وزیراعلیٰ کو ساتھ لے کر، اُس کے بغیر وزیراعظم کا میدان میں آ جانا اِس امر کا اظہار ہے کہ اب کارکردگی وزیراعلیٰ سے شروع ہو کر نیچے تک دیکھی جائے گی۔
اب یہ بات تو صحیح ہے کہ دورے کرنے اور چھاپے مارنے کی یہ تکنیک شریف برادران نے متعارف کرائی اور بہت زیادہ استعمال کی۔ خاص طور پر شہباز شریف کو اسی وجہ سے شو باز شریف بھی کہا گیا، جو ہر جگہ پہنچ جاتے اور سرکاری افسروں کو اِدھر اُدھر کر کے اپنا سکہ جما آتے۔ ایک زمانے میں وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف بھی فیصل آباد کے دورے پر گئے، چھاپے مارے اور افسران کو برطرف کیا، تاہم یہ کام انہوں نے زیادہ تر شہباز شریف پر چھوڑے رکھا،لیکن ایسی صورتِ حال کبھی پیدا نہیں ہوئی کہ وزیراعظم کسی شہر کے دورے پر نکلے ہوں اور صوبے کے وزیراعلیٰ کو اُس کی خبر ہی نہ ہو۔ یہ امر بھی قابل ِ ذکر ہے کہ چند ماہ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ عمران خان نے عثمان بزدار کو ایک فعال اور متحرک وزیراعلیٰ کے طور پر اپنی پہچان بنانے کی ہدایت جاری کی ہے،جس کے بعد یہ بھی سب نے دیکھا کہ وزیراعلیٰ نے مختلف شہروں کے اچانک دورے شروع کئے،اور کئی افسران کو کھڈے لائن بھی لگایا۔ وزیراعظم کا خود نکل آنا کیا اِس امر کا اظہار ہے کہ وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے فعال کردار سے مطمئن نہیں اور انہیں متحرک کرنے کے لئے خود میدان میں آ گئے ہیں۔عمران خان نے جن ہسپتالوں کا دورہ کیا،اُن کے حالات پر عدم اطمینان ظاہر کیا۔ خاص طور پر بچوں کے لئے طبی سہولتوں کے فقدان پر اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے فوری اقدامات اٹھانے کا حکم دیا۔ اب یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پنجاب میں صحت کا شعبہ انتہائی ناقص کارکردگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے بڑی توقعات تھیں کہ وہ صورتِ حال بہتر بنائیں گی، مگر اُن کا کوئی ایک اقدام بھی ایسا نظر نہیں آتا،جس سے سرکاری ہسپتالوں کی حالت ِ زار میں تھوڑی بہت بہتری کا اشارہ ملتا ہو۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار شاید اُن سے پوچھ بھی نہیں سکتے،کیونکہ وہ پارٹی کی سینئر رکن ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے بہت قریب بھی ہیں تو کیا یہ کہنا چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان نے اچانک چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں کے دوروں کا فیصلہ اِس لئے کیا کہ اپنے پارٹی رہنماؤں کو بالواسطہ طور پر یہ پیغام دیں کہ صورتِ حال بہتر نہیں اور اِسے بہتر نہ بنایا گیا تو پھر جوابدہ ہونا پڑے گا۔
ملک کے وزیراعظم کا اس طرح بغیر پروٹوکول کے دور دراز کے شہروں میں پہنچ جانا کوئی عام بات نہیں، انتظامیہ کے لئے سو طرح کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، مثلاً وہ تھانہ سٹی تلہ گنگ پہنچ گئے، جہاں کوئی بھی واقعہ ہو سکتا تھا، عموماً جب وزیراعظم کسی دورے پر جاتے ہیں تو جہاں انہوں نے پہنچنا ہوتا ہے اُس جگہ کی تلاشی لی جاتی ہے، وہاں موجود تمام اہلکاروں کو غیر مسلح کر دیا جاتا ہے اور سارا نظام وزیراعظم کا سیکیورٹی سٹاف سنبھال لیتا ہے۔ یہاں کچھ بھی نہیں تھا اور تھانے کے اہلکاروں کے پاس اسلحہ بھی تھا، تو یہ ایک بڑا ایڈوانچر ضرور تھا،جس کے وزیراعظم عمران خان عادی ہیں،مگر اسے مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ملک میں سیکیورٹی صورتِ حال ایسی آئیڈیل نہیں کہ وزیراعظم بلا روک ٹوک ہر جگہ جا سکیں۔
اس دورے کی جو خوبیاں تحریک انصاف کا میڈیا سیل بیان کر رہا ہے وہ اپنی جگہ قابل ِ ستائش ضرور ہیں، مثلاً کہیں ٹریفک نہیں روکی گئی، نہ ہی ہسپتال کو مریضوں کے لئے بند کیا گیا،نہ وارڈوں سے مریضوں کو نکالا گیا اور نہ ہی ایمرجنسی نافذ کی گئی،لیکن وزیراعظم عمران خان کا بے خوف مزاج اپنی جگہ، مگر زمینی تقاضے کچھ اور کہتے ہیں۔ اس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ ہسپتالوں میں کوئی سینئر ڈاکٹر موجود نہیں تھا،حتیٰ کہ ایم ایس حضرات بھی گھر جا چکے تھے۔ جونیئر ڈاکٹر وزیراعظم کے سوالوں کا جواب دیتے رہے۔ گویا وزیراعظم کے جانے سے یہ چیز ہائی لائٹ ہو گئی کہ ہسپتالوں کی انتظامی صورتِ حال دگر گوں ہے۔ انتظامی افسران اور ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینکوں کو رونق بخشتے ہیں، ہسپتال میں داخل مریضوں کو نرسوں اور ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کے سہارے چھوڑ جاتے ہیں۔کسی دن اگر وزیراعظم عمران خان ملتان، ڈی جی خان، راجن پور اور خود عثمان بزدار کے شہر تونسہ شریف کے دورے پر نکل آئے تو انہیں اندازہ ہو گا کہ ڈاکٹروں اور عملے کی ملی بھگت سے یہاں کے سرکاری ہسپتالوں کا کیا حشر ہو چکا ہے اور کس طرح مریض ہسپتالوں کی راہداریوں، پارکوں اور کھلی جگہوں پر پڑے آہ و بکا کر رہے ہیں۔
تاہم مَیں شہباز شریف کے دوروں کے وقت بھی لکھتا رہا ہوں اور اب بھی لکھ رہا ہوں کہ یہ مرض کا کوئی مستقل علاج نہیں۔ یہ صرف گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی ایک کوشش ہے، اصل چیز یہ ہے کہ نظام کو درست کیا جائے، وزیراعلیٰ عثمان بزدار بتائیں کہ انہوں نے ابھی تک پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کا انتظامی ڈھانچہ بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟وزیراعظم یا وہ خود کتنے ہسپتالوں کا دورہ کر سکتے ہیں،کتنے تھانے دیکھ سکتے ہیں؟ آخر کیوں اس نظام کو درست نہیں کیا جاتا ہے، جس میں آئی جی سے لے کرایس ایچ او تک اور سیکرٹری ہیلتھ سے لے کر آؤٹ ڈور وارڈ کے ڈاکٹر تک کے عہدے موجود ہیں اور اُن پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں،کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ ملک کا وزیراعظم ایک تھانے کے دورے پر چلا جائے۔ آخر افسران کس مرض کی دوا ہیں،پھر وزیراعظم ایسے دورے کے بعد سوائے سرزنش یا شاباشی کے اور کر بھی کیا سکتا ہے،اس کا تھوڑا بہت سیاسی فائدہ تو ہو جاتا ہے۔
بلے بلے بھی ہو جاتی ہے،لیکن خرابی تو وہیں موجود رہتی ہے۔”رات گئی بات گئی“ کے مصداق انتظامیہ بھی لسی پی کر سو جاتی ہے اور افسران بھی خراٹے بھرتے رہتے ہیں۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وزیراعظم تلہ گنگ سٹی تھانے کے دورے پر گئے ہیں، اب تھانہ کلچر میں تبدیلی آ جائے گی تو اسے اس کی خوشی فہمی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔زیادہ سے زیادہ وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے صوبے کے آئی جی کو ایک انتباہی خط لکھا جائے گا کہ وزیراعظم کے دورے میں تھانے کے معاملات درست نہیں تھے،اُن کی اصلاح کی جائے۔اب اس میں آئی جی کے لئے کیا خبریت ہے کہ تھانے کے حالات ٹھیک نہیں، اُس سے زیادہ کون جانتا ہے کہ تھانے تو عقوبت خانے ہیں،وہ خود اصلاح نہیں کر سکتا، کیونکہ یہاں تو ”آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے“۔ اب اُسے وزیراعظم آفس سے اگر وارننگ لیٹر مل جاتا ہے تو وہ یس سر کہہ کر جواب بھیج دے گا، نہ عام آدمی کو کچھ ملے گا اور نہ نظام میں سر مو کوئی تبدیلی آئے گی۔ سو وزیراعظم کے ان دوروں کو سطح آب پر ایک ارتعاش دکھانے کی کوشش ہی قرار دیا جا سکتا ہے، باقی ہونا دونا کچھ نہیں۔