اہور;’سینئر تجزیہ کار شاہین صہبائی نے کہا ہے کہ ایشو یہ نہیں ہے کہ شرجیل میمن کے کمرے سے کیا نکلا ہے ،شراب نکلی ہے یا کوئی اور چیز۔ہم سب کو پتہ ہے کہ یہ جتنے بڑے بڑے سیاستدان ہوتے ہیں یہ جب پکڑے جاتے ہیں تو ہسپتال چلے جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری کا ریکارڈ ہمارے سامنے ہے کہ
وہ 11سال جیل میں رہے اور ساڑھے 10انہی ہسپتالوں میں وہ رہے ۔یہ لوگ جیل میں ہوں،ہسپتال یا گھر ان کی زندگی ایک طرح کی ہوتی ہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔نجی ٹی وی کے پروگرام بریکنگ ویوز ود مالک میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار شاہین صہبائی نے کہا چیف جسٹس نے جو چھاپہ مارا ہے تو اس پر جو انکوائری ہورہی ہے مجھے یقین ہے کہ وہ کہیں گے جو وہاں سے برآمد ہوا اس سے شرجیل میمن کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کی چیئرمین نیب سے میٹنگ سرعام ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹھیک نہیں مگر پہلی حکومتوں میں تو برقعہ پہن کر رات کو ملتے تھے ۔حکومت کو چاہئے کہ کسی اسحاق ڈار ، حسن نواز اور حسین میں سی کسی ایک کو پکڑ کر واپس لائیں تاکہ ان کے دل میں یہ تو نہ ہوکہ انہیں کوئی پکڑ نہیں سکتا۔تجزیہ کا ر کاشف عباسی نے کہا ہے کہ نیب ایک ایسا ادارہ ہے جس میں ہم سب کی خواہش ہے کہ اسے ا ٓزاد خودمختارہونا چاہئے ،وزیر اعظم کو چیئرمین نیب سے نہیں ملنا چاہئے تھا۔اب کسی بھی سیاسی مخالف کیخلاف نیب کارروائی کرتا ہے تو وہ سرعام کہیں گے کہ وزیر اعظم نے ملاقات میں ہمارے خلاف انتقامی کارروائی کیلئے کہا۔عمران خان کو اب سب کا احتساب کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ماہر قانون بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کا الیکشن سے پہلے بھی ایک بڑا ایجنڈا تھا کہ ہم نے احتساب کرنا ہے ۔چیئرمین نیب کی ملاقات میں وزیر اعظم نے یہ کہا ہوگا کہ آپ کا ادارہ آزاد ہے ، ہم احتساب میں آپ کی بھر پور سپورٹ کرینگے ۔نیب کا ادارہ آزاد ہے وہ کسی طرح بھی گورنمنٹ کے پریشر میں نہیں آسکتا،سوئس بینک کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔دو سے تین ماہ میں اسحاق ڈار کو پاکستان لے آئینگے ،حسن نواز اور حسین نواز کو بھی واپس لے کر آئینگے ۔ہماری کورٹ کا آرڈر ہے چاہے وہ وہاں کے شہری بھی ہیں انہیں واپس آنا پڑے گا۔