لیکن اُنھوں نے صاف جواب دے دیا کہ وہ کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی ایاز صادق بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے پاس کھڑے تھے جبکہ قومی اسمبلی کے سپیکر اراکین اسمبلی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے دونوں امیدواروں کے لیے بنائی گئیں لابیوں میں جانے کا کہہ چکے تھے۔شاہ محمود قریشی اس دوران کافی بے چینی کی کیفیت میں ایوان میں ٹہلتے رہے اور جب تک سردار اختر مینگل اپنے تینوں ارکان اسمبلی کے ہمراہ عمران خان والی لابی میں نہیں پہنچے اس وقت تک شاہ محمود قریشی بھی اس لابی میں نہیں گئے۔۔شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری جن کے پاس اراکین کے ناموں کی فہرست تھی وہ بار ووٹر اراکین کو گن رہے تھے۔قائد ایوان کے انتخاب کے بعد جب سپیکر قومی اسمبلی نتائج کا اعلان کرنے لگے تو پاکستان مسلم لیگ نواز نے اراکین نے سپیکر کی ڈائس کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اُنھوں نے ’جعلی الیکشن نامنظور، خلائی وزیر اعظم نامنظور اور ووٹ چور عمران چور‘ کے نعرے لگائے۔قومی اسمبلی کے سپیکر کے ان نعروں کو ایوان کی کارروائی سے ہذف نہیں کروایا۔ جب پاکستان مسلم لیگ نواز کے اراکین کا احتجاج بڑھتا چلا گیا تو سپیکر نے
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کی تجویز پر ان نتائج کا اعلان کیے بغیرہی 15 منٹ کے لیے ملتوی کردیا۔اجلاس ملتوی ہونے کے بعد جب عمران خان واپس جارہے تھے تو ان کی باڈی لینگوئج سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شاید سپیکر کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے اراکین جب عمران خان کے خلاف نعرے لگاتے تھے تو پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نہیں اس کا جواب نہیں دیتے تھے بلکہ مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے ہوئے لوگ جذباتی ہوجاتے اور وہ ان نعروں کا جواب دیتے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر متعدد بار روکنے کے باوجود جذباتی خواتین نعروں کا جواب دیتی رہیں۔جب قومی اسمبلی کے سپیکر نے عمران خان کی کامیابی کا اعلان کیا تو عمران خان نے منتخب وزیر اعظم کی حثیت سے جو تقریر کی اس سے لگ رہا تھا کہ وہ حزب مخالف کے نعروں سے کافی ناخوش ہیں عمران خان ایوان میں پہلی تقریر بحثیت منتخب وزیر اعظم کم اور اپوزیشن لیڈر کے زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو کراچی سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی اور اینکر پرسن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین عمران خان کے پاؤں میں بیٹھے ہوئے تھے۔یہ منظر دیکھ کر پریس گیلری سے اونچی آواز میں کہا گیا کہ ’یہیں سے ملے گی وزارت یہیں سے سٹیٹس بحال ہوگا۔‘پاکستان تحریک انصاف کو حزب مخالف کی طرف سے اُنھی سوالوں کا سامنا کرنا پڑا جو وہ سنہ 2013 کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے بارے میں اُٹھاتی تھی۔چار سال پہلے پاکستان تحریک انصاف نے جب دھرنا دیا تھا تو اس وقت کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز الزام عائد کرتی تھی کہ عمران خان کے دھرنے کے پیچھے ’آبپارہ والوں‘ کا ہاتھ تھا۔نومنتخب وزیر اعظم عمران خان متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت تک انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتی جب تک اسے ’اسٹیبلشمٹ‘ کی حمایت حاصل نہ ہو۔آج قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں حکمراں جماعت کو حزب مخالف جماعتوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اتنی مضبوط نہیں ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر پارلیمینٹ میں کی جانے والی قانون سازی کو آسانی سے پاس کرواسکیں۔ حکمراں جماعت کو ایسے حالات میں چھوٹی جماعتوں اور آزاد اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کے ’ترلے‘ کرنا پڑیں گے۔