اِن دِنوں کراچی میں آگ برساتے سورج کے غصے کے سامنے کراچی کے عوام پہلے ہی بے کس و مجبور ہیں اور بلبلا اُٹھے ہیں تو وہیں کراچی میں ایک عرصے سے وفاق کی لے پالک لاڈلی بدتمیز اور بے حیاکے الیکٹرک کاہر ایک گھنٹے بعد تین گھنٹوںکی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طویل دورانیے کی بے لگام ہوتی لوڈشیڈنگ والا ننگا پن اوراِس کی ہٹ دھرمی کا الگ ایک عذاب جاری ہے ایسے میں کے الیکٹرک کی جاری غنڈی گردی کے خلاف کراچی میں بالخصوص جماعت اسلامی کاعوامی احتجاجوں اور مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ شہر کی ایم کیو ایم اور پی پی پی کی طرح دوسری سیاسی جماعتیں اِس پر نمبر اسکورنگ میں لگی پڑی ہیں۔
پچھلے دِنوں جس کا نوٹس لیتے ہوئے حکمران جماعت ن لیگ کے سابق نااہلی وزیراعظم نوازشریف کے چہیتے نامزد کردہ ہمارے بزنس مائنڈ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کراچی تشریف لائے تو اُنہوں نے بجائے کے الیکٹرک کے کان کھینچنے کے اُلٹا اِ سے شاباشی اور تھپکی دی اور یہ بھی کہہ گئے کہ مُلک میں طلب سے زیادہ بجلی موجود ہے،گویاکہ کراچی کی بجلی تقسیم کار نجی کمپنی کے الیکٹرک کو کہہ گئے کیری اُون یعنی کہ بجلی چوری والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ رکھو جیسے کہ وہ کے الیکٹرک کو یہ بھی کہہ گئے کہ جیسا تمہارے جی میں آئے تم کرو،تمہاری گیس بحال کردی ہے،بس تمہیں جتنی گیس کی ضرورت ہوگی وہ سوئی گیس کمپنی فراہم کرے گی ،واجبات کے معاملے پر مشیر خزانہ کو ذمہ داری سونپ دی ،اَب کراچی کو بجلی ملے گی(جبکہ بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ اِن سطور کے رقم کرنے تک شہر کراچی کے انگنت علاقے کے الیکٹرک کی جاری کُتا گردی کے ہاتھوں کئی گھنٹوں سے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں حالانکہ شہر میں انٹر کے طالبعلموں کے امتحانات بھی ہورہے ہیں یہ کیسی بجلی ملی ہے کہ شہر ابھی تک اندھیرے میں ڈوبا ہواہے اور انٹر کے طالبعلم پڑھا ئی کے لئے بجلی کو ترس رہے ہیں)بجلی بحران پر وفاق اور سندھ حکومت میں کوئی تنازع نہیں ،جبکہ کے الیکٹرک کی غنڈہ گردی سے پریشان حال شہر کراچی کے عوام کے ، کے الیکٹرک کو سرکاری تحویل میں لیا جائے والا مطالبہ یہ کہہ کریکسر مستر د کردیا کہ ” کے الیکٹرک کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے“ ٹھیک ہے حکومت کے الیکٹرک کوسرکاری تحویل میں لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تو عرض یہ ہے کہ آج اگر کے الیکٹرک کی کارکردگی اتنی ہی تسلی بخش ہے توپھر حکومت پنچاب سمیت مُلک میں دیگر سرکاری بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کو بھی فی الفور نجی تحویل میںدے دے یا کم ازکم کے الیکٹرک کا دائرہ کار کراچی سے پنچاب تک بڑھادے پھر خود لگ پتہ جائے گا کہ کے الیکٹرک کی کارکردگی کیسی ہے؟
آج جس پر وفاق دانستہ طور پر پردہ ڈال رہاہے اورکراچی کی ترقی کو روکنے کے لئے کے الیکٹرک کو اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کررہاہے اور ہا ں اگر کراچی میں نجی کمپنی کے الیکٹرک ہر لحاظ سے تسلی بخش اور اچھا کام کررہی ہے تو پھر ایک لمحہ سوچے اور ضائع کئے بغیر حکومت سرکاری وزارتِ حج کا شعبہ بھی جلد از جلد ختم کرے کیوں آج حکومت نے سرکاری اور نجی حج اسکیموں کے معاملے کو کھٹائی میں ڈالاہواہے؟ کیوں حکومت 50/50اور 60/40اور اِس سال سرکاری حجاج کو67 فیصد لینے اور نجی حج آپریٹرز کو33فیصد دینے پر تلی ہوئی ہے ایسا حکومت اِس لئے کررہی ہے کہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ سرکاری حج شعبہ عوام کو سستی اور بہترانداز سے وہ تمام خدمات انجام دیتاہے جوکہ پرائیویٹ حج ٹوور آپرٹیرز مہنگاحج پیکچ دے کر بھی نہیں دیتے ہیں جن کی حج خدمات سرکاری حج اسکیموں کے مقابلے میں ناقص ہوتی ہیں،جبکہ نہیں جی ..! بات دراصل یہ ہے کہ حکومت کو سرکاری حج اسکیم میں اچھی خاصی بچت ہوتی ہے جس میں حکومت کو کرنا ورناکچھ نہیں پڑتا ہے بس حکومت کو بغیر کچھ کئے سیدھی سیدھی کڑوروں اور اربوں کی بچت ہی بچت ہوتی ہے تب ہی حکومت اپنی سرکاری حج اسکیم کواپنے ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہتی ہے جبکہ مُلک کے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے دیگرسرکاری منافع بخش اداروں پر خسارے کا لیبل لگا کر پلک جھپکتے ہی کوڑیوں کے دام فروخت کرنا چاہتی ہے تاکہ اِس کا اپنا کمیشن اورپر سنٹیج بھی بنے آج حکومت کا ایسا ہی لینے دینے کا کچھ معاملہ کے الیکٹرک کے ساتھ بھی ہوگا تب ہی حکومت نے کے الیکٹرک کے ہر فعل مکروہ پر چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔اَب یقینی طور پر جس کے بعد یہ واضح ہوگیاہے کہ کے الیکٹرک کو کوئی لگام دینے والانہیں ہے اَب اگراِس پر کبھی اِس کے ستائے عوام کی بددُعاوں اور کوسوں سے قہر خدانازل ہواتوتب کہیں جا کر اہلیانِ کراچی کی کے الیکٹرک سے جان چھوٹے گی ورنہ تو بہت مشکل ہے کہ آج وفاق اور سندھ حکومت اپنے چکروں اِس کی ہٹ دھرمیوں اور غنڈہ گردی کو لگام دیں۔
واہ رے میرے دیس پاکستان کی سیاست تیرے توڈھنگ ہی نرالے ہیں جس میں طاقتور جو چاہتا ہے اپنی مرضی سے کرتا پھر تا ہے یہ اچھا کرے یا بُرا ایسے یہ کرنے کا استثنا حاصل ہے اَب یہ اِس پر منحصر ہے کہ یہ کبھی کسی کو ڈانٹ دے تو کبھی چمکاردے اور کبھی آنکھ کے اشارے سے (ایک کو آنکھ مار کردوسرے کو) ایسی تھپکی اور شاباشی دے کہ دونوںکا کام بھی بن جائے اور اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد بھی پورے ہوجائیں۔ الغرض یہ کہ میرے ارضِ مقدس پاکستان میں تو جا بجا ایسی سیاست کے رنگ چارسو نظر آرہے ہیں آج جس میں حکمران اور سیاستدان عوام کے علاوہ ایک دوسرے کو بھی سامنے سامنے اتنی آسا نی سے بے وقوف بنا رہے ہیں کہ توبہ توبہ .. جیسے جیسے مُلک میں انتخابات قریب آتے جارہے ہیں سیاستدانوں کی گردنوں پر الیکشن کی جیت اور ہار کی دودھاری تیز تلوارلٹکنی شروع ہوگئی ہے ا ورعید قرباں کے جانوروں کی طرح ہماری مُلکی سیاست میں بھی سیاستدانوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ عروج پر پہنچ رہاہے گزشتہ پانچ سالوں میں حکمرانواور سیاستدانوں نے اپنے اللے تللے کے چکر میں عوام کو توانائی سمیت دیگر بحرانوں اور پریشانیوں میںجکڑ ے رکھا جیسا عوام کا رگڑالگایاہے ایسا تو عوام کے ساتھ ستر برسوں میں بھی نہیں ہواہے۔ پھر بھی آج یہ جس تزک و احتشام سے اپنے نامہ اعمال کی گٹھڑی اُٹھائے پھر رہے ہیں۔
اِنہیں دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے جیت سب کا مقدر بنے گی مگر ایسا نہیں ہے جیسا کہ نظر آرہاہے یقینا جیت تو کسی ایک کی ہی ہوگی اَب جیت کس کے نصیب میں ہے یہ تو متوقع الیکشن اور اِس کے نتائج کے بعد ہی معلوم ہوگا مگرآج سب اپنی جیت کی خوش فہمی کی گھٹی کے نشے میں دُوبے ہوئے ہیں اور اپنے فعلِ شنیع کو کوئی بھی ٹھیک کرنے کو تیار نہیں ہے پھر بھی سبھوں کی کوشش ہے کہ انتخابات میں اِن کی جیت یقینی ہے۔اَب اِس منظر اور پس منظر میں بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جواپنے پچھلے پانچ سالوں کے کرتوتوں کا بھی خود سے محاسبہ کرے اور اگلے انتخابات میں جانے سے قبل کم از کم عوام کے سا منے پیش ہواورعوامی خدمات اور مسائل کے حل کے حوالوں سے سرزد ہونے والی اپنی پچھلی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ کرے اِس کے بغیر یہ سب کی بھول ہوگی کہ عوام نادا ن اور ناسمجھ ہیں یہ جس طرح چاہیں گے عوام کو بے وقوف بنا لیں گے جیسا کہ ہمارے عقل سے عاری سیاستدان سمجھ رہے ہیں کہ 2018ءکے انتخابات بھی ماضی کی طرح اِن کی جیت کے لئے حلوہ ثابت ہوں گے تو اِس مرتبہ ایسا کچھ نہیں ہے اِنہیں جیت کے لئے لو ہے کی چنے چبانے ہوں گے