کراچی : نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ میں تجزیہ کاروں نے گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ عمران خان انتہائی کم ووٹوں سے جیتے ،ن لیگ کے کسی رکن نے فلور کراسنگ نہیں کی،عمران خان کی تقریر میں جارحیت نظر آئی ،انہیں لوگوں کے ساتھ مل کر کام چلانےکی
روش اختیار کرنا ہوگی ، پارلیمنٹ منقسم نظرآرہی ہے، پیپلز پارٹی نے ن لیگ کی بی ٹیم بننے کے بجائے اپنا الگ تاثر قائم کیا ہے۔ پرو گر ام میں مرتضٰی سولنگی ،احمد بلال محبوب ، شا ہز یب خانزادہ ،رانا فواد اور آصف علی بھٹی نے اظہار خیال کیا۔ ڈائریکٹر جیو نیوز رانا فواد نے کہاہے کہ عمران خان کو وزیراعظم کیلئے توقع کے مطابق 176 ووٹ ہی ملے ہیں، جمعے کو اسمبلی میں جس قدر ہنگامہ تھا وہ آنے والے دنوں کا بتارہا تھا،پارلیمنٹ میں جو ماحول تھا اس پر بڑا سوالیہ نشان آگیا ہے،پاکستان میں پہلا موقع ہے کہ مسلسل تیسری جمہوری حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے، 2008ء سے 2018ء کے درمیان جو واقعات ہوئے وہ اگر دس سال پہلے ہوتے تو تین مارشل لاء شاید لگ چکے ہوتے، کوئی نہ کوئی چیز ایسی تھی جو آمریت کو روک رہی تھی، بظاہر سیاسی نظام اور گورننس کمزور نظر آتی ہے لیکن جمہوری عمل چلنا شروع ہوگیا ہے اب اس کے فوائد آئیں گے، ماضی میں ایک وزیراعظم دوسرے وزیراعظم کیخلاف بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ رانا فواد کا کہنا تھا کہ محمد حنیف کا کالم پڑھ کر بہت اداس ہوا ہوں، اس نے لکھا ہے کہ یہ غلط ہے کہ اس ملک میں بھٹو زندہ ہے
اس ملک میں ضیاء زندہ ہے، اس نے بہت زبردست لاجک کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے،ہمیں سوچنا چاہئے کہ اگر نواز شریف پارلیمنٹ میں روزانہ آتے اور ہفتے میں کابینہ کی تین تین میٹنگیں کرتے تو کیا ان کے ساتھ وہ نہ ہوتا جو ہوا، کیا یوسف رضا گیلانی باقاعدگی سے پارلیمنٹ میں نہیں آتے تھے، پاکستان کے آج جو حالات ہیں وہ کسی وزیراعظم کی پارلیمان سے غیر حاضری یا کابینہ کی میٹنگ نہ کرنے سے نہیں ہیں۔رانا فواد نے کہا کہ عمران خان نے جمعے کو اسمبلی میں جو تقریر کی اس میں کچھ نہیں تھا، لگتا تھا کہ وہ کسی کارنر میٹنگ سے خطاب کررہے ہیں ،عمران خان اپنی باڈی لینگویج سے اکتائے ہوئے اور غصے میں لگ رہے تھے، ن لیگ کی خواتین نے عمران خان کے سامنے بہت زیادہ ہوٹنگ کی شاید اس وجہ سے وہ بہت چڑے ہوئے تھے، میں عمران خان کے غصہ کو دیکھ کر ڈر گیا کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی عدم برداشت کا یہ عالم ہے،وزیراعظم کی تقریر میں کوئی وژن یا مستقبل کے حوالے سے بات نہیں تھی، احتساب کا نعرہ 1958ء سے آج تک لگتا چلا آرہا ہے، عمران خان نے کیا صرف سیاستدانوں کا احتساب کرنا ہے،
عمران خان نے تقریر میں ساری باتیں اپنے حوالے سے کیں، آج تک کسی حکومت یا پارلیمنٹ نے این آر او نہیں کیا۔ رانا فواد کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی ایوان میں حکمت عملی سے ان کی قدر کم ہوئی ہے، پیپلز پارٹی آج بھی سب سے زیادہ مضبوط جمہوری پارٹی ہے، پیپلز پارٹی اپنے تئیں گراس روٹ لیول سے اٹھی اور بہت جبر کا مقابلہ کیا،پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی کا رویہ دیکھ کر بڑا دھچکا لگا،نجم سیٹھی نے اپنے کالم میں بہت اچھا بیان کیا کہ آصف زرداری کی کیا مجبوریاں ہیں، ایف آئی اے، نیب اور عدالت۔ پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ میں اچانک گیئر چینج ہوگیا ہے، آصف زرداری پر کرپشن اور احتساب کے حوالے سے بہت چیک آیا ہے، آصف زرداری نے اس سب میں سیاسی عمل، جمہوری پارٹی کے تصور کو نقصان پہنچایا ہے، پیپلز پارٹی کے لوگ سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو کی جارحانہ انتخابی مہم کی وجہ سے ان کی نشستیں بڑھی ہیں۔ نمائندہ خصوصی جیو نیوز آصف علی بھٹی نے کہا کہ وزیر اعظم کے انتخاب میں معاملات طے شدہ تھے، پیپلز پارٹی چار پانچ روز پہلے ہی ووٹ نہ کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی، یہ آصف زرداری کی حکمت عملی تھی انہوں نے پوری پارٹی کی رائے کو بلڈوز کرتے ہوئے کہا کہ ہم ووٹ نہیں کریں گے،
عمران خان کو 176اور شہباز شریف کو 96ووٹ ہی ملنے تھے ،پی ٹی آئی نے فاٹا کے دو آزاد ارکان کو ملانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں آسکے، قانون کے مطابق اگر کسی پارٹی کا رکن دوسری پارٹی کے امیدوار کو ووٹ کرتا تو نااہل ہوجاتا۔ آصف علی بھٹی کا کہنا تھا کہ عمران خان کو خطرہ پارلیمنٹ کے اندر سے نہیں باہر سے ہوگا، پہلے بھی تمام وزرائے اعظم باہر کے خطرے سے گئے پارلیمنٹ نے کسی کو بھی نہیں نکالا، سابق وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ کو مضبوط نہیں کیا،پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی سب سے اچھی پوزیشن میں رہی، پیپلز پارٹی نے نہ ووٹنگ اور نہ ہی ہوٹنگ میں حصہ لیا،جمعے کو پارلیمنٹ میں ن لیگ کا شو پورا رانا ثناء اللہ کا شو تھا، شہباز شریف نے کالی پٹی ضرور باندھی تھی لیکن ایک طرف بیٹھے رہے۔آصف علی بھٹی نے کہا کہ اسپیکر صورتحال کو کنٹرول کرنے سے معذور نظر آئے، پی ٹی آئی والوں نہ صرف مہمانوں کی گیلری اور پریس گیلری میں شور مچایا بلکہ صحافیوں کو مارا، ہم لوگوں کو کچھ کہتے تو وہ کہتے یہ نیا ایوان ہے یہ ہمارا ایوان ہے، عمران خان سمجھتے تھے کہ ان کا اسپیکر تمام صورتحال کو کنٹرول کرلے گا، وہ پہلے سکون سے بیٹھے رہے مگر پچیس منٹ تک عمران خان کے سامنے جو کچھ ہوا اسے برداشت کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے،
عمران خان جب باہر سے واپس آئے تو ن لیگ والے تیار بیٹھے تھے۔ آصف علی بھٹی نے بتایا کہ عمران خان کی لکھی ہوئی تقریر بھی تھی جو بڑی جامع تھی، عمران خان لکھی ہوئی تقریر نہیں کرنا چاہتے تھے، عمران خان نے ایوان میں کنٹینر والی تقریر کردی، انہوں نے وہی دشنام طرازی کے جملے یہاں بھی دہرائے اسی طرح گھسیٹنے کی باتیں کیں۔آصف علی بھٹی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے، آصف زرداری کو کڑے احتساب کا کڑا ڈال دیا گیا ہے جس سے وہ کہیں بھاگ نہیں سکتے ہیں، اس ساری صورتحال میں پیپلز پارٹی کو نقصان ہوا ہے۔ سینئر تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے واک اوور دینے کے باوجود عمران خان انتہائی کم ووٹوں کی اکثریت سے جیتے ہیں، ن لیگ کے کسی ایک رکن نے بھی فلور کراسنگ نہیں کی،جمعے کو پار لیما ن میں جو کچھ ہوا اس پر ہمیں پریشان ہونا چاہئے کیونکہ صرف حزب اختلاف نے نہیں بلکہ حکومت نے بھی ہنگامہ کیا، شہباز شریف کو حکومتی ارکان نے تقریر نہیں کرنے دی اور ان کی آواز دب گئی، حکومت کے رویے کو عمران خان کی تقریر ملا کر دیکھنا ہوگا، انتخابات میں فتح کے بعد غیررسمی تقریر میں عمران خان کا رویہ مصالحانہ تھا مگر جمعے کو مخاصمانہ رویہ نظر آیا،عمران خان کے لہجہ میں دھمکیوں کے ساتھ طعنہ زنی بھی تھی، پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں بہت تھوڑی اکثریت ہے جبکہ سینیٹ میں وہ اقلیت میں ہیں ایسے میں قانون سازی کیسے کرے گی، عمران خان اگر پارلیمنٹ سے کوئی قانون منظو ر نہیں کرواسکتے تو حکومت سازی کیسے کریں گے۔ مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے کچھ لیڈرز کی مشکلات پارٹی کے مستقبل کے آڑے آرہی ہیں، پیپلز پارٹی کے پاس پچھلی پارلیمان کے مقابلہ میں زیادہ نشستیں ہیں، پیپلز پارٹی کی اس وقت جیت کرہارنے والی صورتحال نظر آتی ہے