لندن (ویب ڈیسک) ملکہ برطانیہ نے شہزادہ ہیری اور میگھن کو ’عبوری عرصہ‘ فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے جس میں وہ کینیڈا اور برطانیہ میں وقت گزار سکیں گے۔ ملکہ برطانیہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے کے مطابق وہ ان دونوں کی جانب سے خود مختار زندگی گزارنے کی خواہش کی
’مکمل حمایت‘ کرتی ہیں تاہم وہ اس پر دونوں کی کل وقتی طور پر شاہی خاندان کا حصہ رہنے کو ترجیح دیتیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں حتمی فیصلے کر دیے جائیں گے۔شاہی خاندان کی جانب یہ اعلامیہ سینیئر اراکین کے ایک اجلاس کے بعد جاری کیا گیا جس میں شہزادہ ہیری اور میگھن کے مستقبل کے حوالے سے مشاورت ہوئی۔خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے شہزادہ ہیری اور میگھن کی جانب سے سینیئر شاہی حیثیت سے دستبردار ہونے کا اعلان سامنے آیا تھا۔ملکہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق سینڈریگھم میں ہونے والی بات چیت ’انتہائی مثبت‘ رہی جن میں شہزادہ چارلس اور ڈیوک آف کیمبرج شہزادہ ولیمز بھی موجود تھے۔ملکہ نے کہا کہ ’میں اور میرا خاندان ہیری اور میگھن کی بطور نوجوان جوڑے ایک نئی زندگی بنانے کی خواہش کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حالانکہ ہم چاہتے تھے کہ وہ کل وقتی طور پر شاہی خاندان کا حصہ رہتے تاہم ہم ان کی بطور خاندان ایک مزید آزادانہ زندگی بسر کرنے کی خواہش کا احترام کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ہمارے خاندان کا ایک اہم حصہ ہیں۔‘اس ہنگامی اجلاس کی ضرورت اس وقت پڑی جب گذشتہ بدھ کو ڈیوک اور ڈچز آف سسیکس نے شاہی خاندان کو اپنے اس بیان سے حیران کر دیا جس میں انھوں نے ‘سینیئر شاہی حیثیت سے دستبردار’ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ہیری اور میگھن کو ’کینیڈا اور برطانیہ میں زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے گا۔‘
دلہے کہ یہ چیز بہت لمبی ہے۔۔۔ دیکھ کر دلہن نے شادی سے انکار کر دیا، انتہائی حیران کن خبر
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہیری اور میگھن ’یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ اپنی نئی زندگیوں میں سرکاری خزانے سے منحصر نہیں رہیں گے۔ یہ مسائل میرے خاندان کے لیے پیچیدہ ہیں اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے مزید کام کرنا ہو گا، تاہم حتمی فیصلہ آنے والے دنوں میں کر دیا جائے گا۔‘ اس ہنگامی اجلاس کی ضرورت اس وقت پڑی جب گذشتہ بدھ کو ڈیوک اور ڈچز آف سسیکس نے شاہی خاندان کو اپنے اس بیان سے حیران کر دیا جس میں انھوں نے ’سینیئر شاہی حیثیت سے دستبردار‘ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور ’ایک نیا کردار نبھانے‘ کے حوالے سے بات کی تھی جس میں وہ مالی طور پر آزاد ہوں گے اور برطانیہ اور شمالی امریکہ میں وقت گزاریں گے۔یہ مزاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب شہزادہ ہیری اور شہزادہ ولیمز کی جانب سے ایک مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا تھا جس میں ان کی جانب سے ایسے ’جھوٹے دعوؤں‘ کی تردید کی گئی تھی جن کے مطابق ان کا آپس کا رشتہ اس لیے متاثر ہوا کیونکہ شہزادہ ولیمز شہزادہ ہیری پر ’دھونس جمایا‘ کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ’اشتعال انگیز زبان ناگوار‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’نقصان دہ‘ بھی ہے۔ کیونکہ وہ اس سے قبل ذہنی صحت کے مسائل کے حوالے سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔گذشتہ چند ماہ سے شہزادہ ہیری اور میگھن شاہی زندگی اور میڈیا کی بے انتہا توجہ کے حوالے سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کرتے رہے ہیں ۔دوسری جانب کینیڈا کے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو نے گلوبل نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا
آج ٹوئٹر پر سارا دن چوسنی دے منہ والی کیوں ٹاپ ٹریند بنا رہا ؟
کہ جوڑے کی کینڈا منتقلی کے حوالے سے کوئی ’بات چیت‘ نہیں ہوئی ہے اور نہ ان کی سکیورٹی کے مسائل یا کینیڈا کی عوام پر ان کی منتقلی سے پڑنے اثرات کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔اس فیصلے کے حوالے سے ڈیوک اور ڈچز آف سسیکس نے شاہی خاندان کے کسی بھی رکن سے مشورہ نہیں کیا تھا تاہم ان کے مطابق یہ فیصلہ ‘متعدد مہینوں کی سوچ بچار’ کے بعد سامنے آیا۔گذشتہ چند ماہ سے شہزادہ ہیری اور میگھن شاہی زندگی اور میڈیا کی بے انتہا توجہ کے حوالے سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کرتے رہے ہیں۔شہزادہ ہیری نے یہاں تک کہا تھا کہ انھیں ڈر ہے کہ ان کی اہلیہ بھی انھی ’طاقتور قوتوں‘ کا نشانہ نہ بنیں جو ان والدہ کی موت کے ذمہ دار تھے۔ملکہ کی جانب سے یہ ایک انتہائی غیر رسمی، واضح اور تقریباً ذاتی بیان ہے۔یہ واضح ہے کہ انھیں ہیری اور میگھن کے اس فیصلے پر دکھ ہے اور وہ انھیں پرانے کردار نبھاتے دیکھنا چاہتی تھیں۔تاہم وہ یہ بھی واضح کرتی ہیں کہ وہ (ہیری اور میگھن) اب بھی شاہی خاندان کا حصہ ہیں اور اس خودمختار جوڑے کی خاندان میں قدر کی جائے گی۔ تاہم ان دونوں کے مستقبل کے حوالے سے متعدد سوالات کے جوابات ملنا اب بھی باقی ہیں۔ جیسا کہ مستقبل میں ان کی شاہی حیثیت کیا ہو گی، ان کے شاہی خاندان سے روابط کیسے ہوں گے، کون کتنے پیسے ادا کرے گا اور ہیری اور میگھن اپنے اخراجات کیسے پورے کریں گے۔اس حوالے سے متعدد باتوں پر اتفاق اور اختلاف ہونا ابھی باقی ہے اور اس میں سے ہر بات عوام تک نہیں پہنچے گی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملکہ اسے ایک عمل کے طور پر دیکھ رہی ہیں، ایک واقعے کے طور پر نہیں۔ ملکہ نے کہا ہے کہ حتمی فیصلے آئندہ چند روز میں کر دیے جائیں گے تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں ان فیصلوں پر نظرثانی بھی کی جائے۔