لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان خصوصاً پنجاب کے دانشوروں کی ایک جانی پہچانی غلط بیانی پر دو آنسو بہالیں تو آگے بڑھیں۔ وہ اپنی عوام دوستی‘ روشن دماغی اور بائیں بازو کی روایتی ترقی پسندی کے باوجود تاریخی حقائق کو جھٹلاتے ہیں اور وہ یوں کہ وہ اہل پنجاب کو بزدلی‘غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی نامور کالم نگار نسیم احمد باجوہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جگہ مفاہمت اور ہر بڑی طاقت کے خلاف سر جھکانے کا طعنہ دیتے ہیں۔ خدا بھلا کرے پانچ لوگوں کا‘ جنہوں نے مذکورہ بالا بیانیہ کی ٹھوس دلائل دے کر پانچ اچھی اور بصیرت افروز کتابیں لکھیں۔ سر فہرست تو پروفیسر عزیز الدین احمد ہیں ‘دوسری میرے مرحوم دوست عبداللہ ملک کی لکھی ہوئی ”پنجاب کی سیاسی تحریکیںہے‘‘ ۔ تیسری ہے کراچی میں پڑھانے والے ڈاکٹر محمد اعظم چوہدری کی ”تحریک پاکستان میں پنجاب کا کردار‘‘ اور چوتھی ہے۔ پروفیسر ستیہ ایم رائے کی پنجاب کی انقلابی تحریکیں ۔ آخری کتاب بھگت سنگھ بلگہ کی ہے ”پنجاب کی سیاسی جدوجہد‘‘۔ یقینا اور بھی مستند کتابیں ہوں گی‘ جو میری نظر سے نہیں گزریں ۔انسانی تاریخ اور کرکٹ کے کھیل میں یہ بڑا فرق ہے کہ تاریخ اُن لوگوں کو بھی ہیرو کا درجہ دیتی ہے‘ جو بقول فیضؔ ”تاریک راہوںمیں مارے گئے‘‘ تاریخ میں فتح و شکست کا ہیرو کا درجہ حاصل کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ پنجاب میں مزاحمت کا پہلا مظاہرہ راجہ پورس نے کیا۔ یہ قبل از مسیح کی بات ہے۔ قریباً اڑھائی ہزار سال پرانی۔ شمالی حملہ آوروں خصوصاًغوریوں کے خلاف صدیوں تک پوٹھوہار کے گکھڑ قبائل اورمغلوں کے خلاف دُلّا بھٹی (1547-1599ء ) بڑی بہادری سے لڑے۔ ”پگڑی سنبھال جٹا‘‘ کے نام سے کسانوں کی مزاحمتی تحریک سے پہلے ساندل بار میں برٹش راج کے خلاف لڑنے والارائے احمد خان کھرل (1785-1857ء ) بھی پنجابی سورما ہے۔ جلیانوالا باغ کے سانحہ کے بعد امرتسر اور گوجرانوالہ میں زبردست یورشیں ہوئیں (گوجرانوالا پر فضائی بمباری بھی ہوئی)۔ کاش کالم نگار کو ”آواز دوست‘‘ لکھنے والے مختار مسعود یا ”آب ِحیات‘‘ کے مصنف مولانا محمد حسین آزاد کے مقابلہ میں انشا پردازی کے فن پر ہزاروں گنا کم بھی عبور ہوتا تو وہ اڑھائی ہزار سال پر پھیلی ہوئی قابل ِفخر تاریخ کو یوں بیان کرتا کہ میرے قارئین کو زے میں دریا بند کردینے پر اَش اَش کر اُٹھتے۔ میں نے بصد مشکل آپ کو صرف چند سنگ میل دکھائے ہیں۔ میری استدعا ہے کہ آپ اسی پر قناعت کریں اور مجھے اجازت دیں کہ میں آج کاکالم پنجاب کے ایک اور ہیرو کے نام کروں‘ جس کا نام ہے؛ اُدھم سنگھ۔ آج اس پر کالم کو لکھنے کا جواز یہ ہے کہ میں نے ماضی قریب میں جو دو کتابیں خریدیں‘ اُن میں ایک انیتا انند نے لکھی اور عنوان ہے؛ The Patient Assassin: A True Tale of Massacre, Revenge and the Raj۔ سانحہ جلیانوالہ باغ کے ذمہ دار جنرل ڈائر کو صرف ایک شخص نے اس قتل عام کا ”کارنامہ‘‘ انجام دینے پر مبارک دی اور اُس کا نام تھا Michael O’Dwyer‘جو پنجاب کا گورنر تھا۔امرتسر میں قتلِ عام 1919ء میں ہوا اور قاتل کو شاباش کہنے والے کو اس کی سزا 25 سال بعد 1940ء میں لندن میں ملی۔ اُدھم سنگھ کے ہاتھوں۔فاضل مصنفہ (انیتا انند) کی زیر نظر کتاب کا مقصد زیب داستان کے لئے کئے گئے اضافوں کا غلاف اُتار کرہمیں اصل اُدھم سنگھ کی شخصیت اور اُس کے ” تاریخی کارنامے‘‘ سے متعارف کروانا ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ مشکل کام کمال ہنر مندی سے سرانجام دیا۔ ایک طرف دعویٰ کہ قتل عام کے وقت ادھم سنگھ جلیانوالہ باغ میں موجود تھا اور دوسری طرف شواہد جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ غالباً اُس دن امرتسر شہر کی حدود سے بھی باہر تھا۔ قتل عام کے دن اور وقت وہ باغ کے اندر تھا یا باہر‘ ا س کی کچھ اہمیت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اُس نے 21 سال بعد لندن جا کر قاتل (جنرل ڈائر) کو تھپکی دینے والے گورنر مائیکل او ڈوائیر کو اس سنگین جر م کی وہ سزا دی‘ جس کا وہ مستحق تھا ۔ اُدھم سنگھ کا بچپن میں نام شیر سنگھ تھا۔ اس کے بعد وہ باری باری اُودے سنگھ‘ فرینک برازیل‘ محمد سنگھ آزاد اور آخر میں قیدی نمبر1010 بنا۔ سولہ سال کی عمر تک وہ اپنے والدیں اور بڑے بھائی کے سایہ سے محروم ہو گیا تھا۔ وہ یتیم خانے میں پلا بڑھا اور بڑھئی کا ہنر سیکھا۔ 1917 ء میں وہ برٹش آرمی میں بھرتی ہوا اور دو سال فوجی ملازمت کی۔ 1919 ء میں وہ کینیڈا میں بنائی جانے والی غدر پارٹی کے پمفلٹ پنجاب بھر میں تقسیم کرنے لگا۔ ایک سال بعد وہ عام مزدور بن کر مشرقی افریقا میں روزی کمانے لگا۔ وہاں سے وہ ہندوستان واپس آیا‘ مگر بہت جلد امریکا نقل مکانی کر گیا۔ وہاں سات سال گزارنے اور برٹش راج کے خلاف زیر زمین بغاوت کی آگ کے شعلے بھڑکانے کی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ 1917 ء میں ہندوستان واپس آیا تو آتے ہی پکڑا گیا۔ اس نے اپنی دہشت پسند سرگرمیوں کو تسلیم کر لیا اور جیل کی سزا پائی۔ 1933 ء میں رہائی ملی تو وہ ایک نیا پاسپورٹ حاصل کر کے برطانیہ چلا گیا۔ چھوٹے موٹے کام کر کے (جن میں Elephant Roy نامی فلم میں بطور ایکسٹرا اداکاری بھی شامل تھی) گزارہ کرتا رہا۔ سات سال گزر گئے۔ عیسوی سال1940‘ مارچ کا مہینہ اور تاریخ 13‘ لندن اور مرکزی لندن میں بعد دوپہر پارلیمنٹ کے قریب Caxton Hall میں افغانستان کے حالات پر جو اجلاس ہوا‘ اُس میں مقتول اور قاتل دونوں موجودتھے۔ اجلاس ختم ہوا تو 75 سالہ سر مائیکل او ڈوائر مقرر ین سے ملنے کے لئے اُٹھا تو اُدھم سنگھ اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ اُس نے مقتول کے دل میں بڑے چھوٹے فاصلہ سے دو گولیاں ماریں اور پھر برٹش راج کے چند بڑے افسروں کو باقی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ (اُن میں سے کوئی بھی ہلاک نہ ہوا)۔ پولیس نے اُدھم سنگھ کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا تو ریوالور بھی اُس کے ہاتھ میں تھا۔ اُس نے پولیس سے ایک سگریٹ کی فرمائش کی۔ (ہم نہیں جانتے کہ وہ فرمائش پوری کی گئی یا نہیں) بہرحال اُدھم سنگھ نے جیل میں وقت بھگت سنگھ کی تقاریر کو اُونچی آواز میں پڑھ پڑھ کر گزارا۔ مقدمہ چلا تو اُس نے بڑے فخر سے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ پھانسی کی سزا ملی اور 1974ء تک وہ سرزمین برطانیہ کی ایک خفیہ قبر میں مدفون رہا۔ اُس سال (بھارتی حکومت کے پرُ زور اصرار پر) اُس کا تابوت بھارت لے جایا گیا‘ جہاں لاکھوں افراد نے اس کا استقبال کیا اور بڑے اعزاز کے ساتھ اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ کالم نگار امرتسر جلیانوالہ باغ گیا تو اُس نے وہاں اُدھم سنگھ کا مجسمہ بھی دیکھا۔ باغ کے باہر پھول فروشوں کی بڑی تعداد کی خدمات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے‘ میں نے (اہل پاکستان کی طرف سے) مجسمے کے گلے میں گیندے کے پھولوں کا بڑا ہار ڈالا اور تعظیماً اُس کے سامنے کافی دیر ٹھہرا‘ یہ سوچتا رہا کہ چاہے اُدھم سنگھ کا تخیل کتنا زرخیز ہو ‘یہ بات کبھی اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگی کہ اُس نے تو پانچ سو کے قریب بے گناہ اور غیر مسلح اور پرُ امن ہندوستانی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو مارنے والے کے لئے صرف تعریفی کلمات ادا کرنے والے کو ہلاک کر کے اپنے حساب سے بدلہ لے لیا ‘مگر جلیانوالہ باغ کے 65 سال بعد اُسی شہر میں سکھوں کے سب سے مقدس گوردوارہ (ہرمندر صاحب) پر بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے حکم پر بھارتی فوج ہزاروں افراد کو ہلاک کر دے گی‘ تاکہ گولڈن ٹیمپل کو بھنڈراں والا اور اُس کے ساتھیوں کے قبضہ سے واگزار کرایا جا سکے۔ بھارتی حکومت صرف امرتسر میں نہیں‘ بلکہ 71 سال سے وادیٔ کشمیر میں بھی حریت پسند نوجوانوں کے قتل عام کے سنگین جرائم کر رہی ہے ۔ حکمران گورا ہو یا کالا‘ منگول ہو یا تاتاری بے گناہ اور غیر مسلح لوگوں کو قتل کرنے والے مرہٹے ہوں یا پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کا قتل عام کرنے والے ۔ اُن کی زبان سے وہی الفاظ ادا ہوتے ہیں‘ جو اقبالؔ نے ”ضرب ِکلیم ‘‘میں مسولینی سے کہلوائے۔؎ پردئہ تہذیب میں غارت گری‘ آدم کشی ۔۔ کل روا رکھی تھی تم نے ‘میں روا رکھتا ہوں آج۔