تحریر: ایم پی خان
نئے تعلیمی سال کے آغاز میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنا تشہیری مہم شروع کردیتے ہیں۔ عموماً فروری اورمارچ کے مہینوں میں یہ سلسلہ خوب عروج پرہوتاہے۔اشتہاربازی کے اس مہم میں تعلیمی اداروں کے مالکان کافی رقم خرچ کرتے ہیںاورانکے خیال میں یہ بھی ایک قسم کی سرمایہ کاری ہے۔ نئے سال کاآغازاداروں کے مالکان کے لئے کافی منافع بخش ہوتاہے، کیونکہ ان اداروں میں جوطلباداخلہ لیتے ہیں اورجو اگلی جماعتوں میں ترقی پاتے ہیں ، ان سے مختلف قسم کی فیسیں وصولی کی جاتی ہیں۔ داخلہ فیس، پروموش فیس، امتحانی فیس، ٹیوشن فیس، بال کٹائی فیس، کتب خانہ فیس، لیبارٹری فیس، کمپیوٹرفیس اورسپورٹس فیس وغیرہ وغیرہ کے نام پر عوام کو لوٹنے کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے۔
اسکے بعدپھردوکانداری کادوسراسلسلہ شروع ہوجاتاہے،جس میں کتب اورکاپیاں فروخت کی جاتی ہیں۔ تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ طلبا کو ہرحال میں کتب اورکاپیاں ادارے کے اندرسے ہی خریدنی ہوگی، جس کایہ فائدہ ہوتاہے کہ مختلف پبلشر کمپنیاں ان تعلیمی اداروں کو تقریباً چالیس یاپچاس فیصدکمیشن دیتے ہیں۔ اس طرح ہرتعلیمی ادارہ کتب اورکاپیوں کی مدمیں لاکھوں روپے کماتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ سکول یاکالج کامالک سکول چلانے کے ساتھ ساتھ کئی دوسری قسم کے دھندوں جیسے گاڑیوں اورجائدادکی خریدوفروخت سے بھی منسلک رہتاہے ۔اپنے تعلیمی کاروبارکو ترقی دینے اورلوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کیلئے پرائیویٹ تعلیمی اداروں والے اخبارات، ریڈیو،ٹیلی وژن، انٹرنیٹ، وال چاکنگ اوردستی چٹھیوں کے ذریعے اپنے کاروبار کی تشہیری مہم میں اپنے ادارے ، انتظامیہ اورعملے کی تعریف میں زمین اورآسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ بعض اداروں کے دعوے دیکھ کرلوگوں کو یہ اندازہ ہوتاہے جیسے پورے ملک میں یہی واحد ادارہ ہے ،
جہاں دینی اور دنیاوی علوم کے ساتھ بہترین اخلاقی تربیت بھی میسرہے ۔بعض اداروں والے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے موبائل فون کمپنیوں کی طرح نئے نئے پیکجز متعارف کرتے ہیں ،جیساکہ پہلے آنے والے دس طلباء سے داخلہ فیس نہیں لی جائے گی۔ادارہ سے کتب کاپیاں خریدنے کی صورت میں پانچ فیصد رعائت ہوگی۔ہر جماعت میں پہلی پوزیشن لینے والے طلباء کو ٹیوشن فیس معاف ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔ ہرسال کے شروع میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنی مرضی کے مطابق کسی جواز اورپیشگی اطلا ع کے بغیر فیسوں میں خودساختہ اضافہ کرلیتے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے سکولوں سے لیکر ،جوگلی کوچوں کی معمولی معمولی عمارتوں میں قائم ہوتے ہیں ، وہاں بھی ابتدائی جماعتوں کے طلباء اورطالبات کی ماہانہ فیس ہزاروں روپے میں ہوتی ہے جبکہ بڑے بڑے سکول اورکالجوں میں توفیس کی شرح اکثرلاکھوں میں ہوتی ہے۔
لہذا اس ضمن میں حکومت کو سختی سے نوٹس لیناچاہئے اورتما م تعلیمی اداروں میں فیس کے لئے شرح متعین کرلیناچاہئے ، تاکہ تعلیم کے حصول میں حائل مشکلات کم ہوں۔اسکے علاوہ سب اہم مسئلہ نصاب کاہے۔ہرتعلیمی ادارے نے اپنی مرضی کے مطابق نصاب کاانتخاب کیاہے۔ نصاب کے انتخاب میں تعلیمی اداروں کے مالکان کی سب سے پہلی ترجیح کتب اورکاپیوں کی قیمتوں میں اپنے کمیشن کی ہوتی ہے۔ لہذا اس ضمن میں سرکاری سرپرستی میں ماہرین نصاب کی ایک کمیٹی کی تشکیل دینا بہت ضروری ہے، جو اس امرکی نگرانی کرے کہ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ایک جیسے نصاب کو پڑھانالازمی ہوگا، بلکہ پورے ملک میں تمام تعلیمی اداروں کو اس امرکاپابند بنایاجائے کہ نصاب تعلیم ایک ہی ہوگا، خواہ وہ سرکاری تعلیمی ادارے ہیں یانجی تعلیمی ادارے۔مزیدبراں نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کابھی خیال رکھناضروری ہے۔اکثرسکولوں میں معمولی پڑھے لکھے افراد کو تین یاچارہزارروپے ماہوارتنخواہ دیکر ،ان سے بچوں کوپڑھانے کاکام لیاجاتاہے ،
جو تعلیم کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔اس طرح بعض اساتذہ کو پڑھانے سے متعلق کوئی تربیت نہیں دی جاتی اورانکے پاس کسی قسم کی پیشہ ورانہ سند وغیرہ نہیں ہوتی۔ان تعلیمی اداروں میں اس بات کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جاتی کہ کونسااستادکس مضمون کے پڑھانے میں ماہرہے اورکس کی استعدادکتنی ہے ، بس سکول کاپرنسپل یاکوئی دوسراانتظامی امورچلانے والااپنی مرضی کے مطابق ٹائم ٹیبل مرتب کرتاہے اور اساتذہ کو مختلف جماعتوں میں تدریس کی ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں۔اس طرح اکثرتعلیمی اداروں میں سلیبس کابھی نام ونشان نہیں ہوتااوراستاداپنی مرضی کے مطابق سبق پڑھاتاہے ، نہ تدریس کا کوئی خاص طریقہ کاراورنہ مناسب جائزہ کاعمل ہوتاہے۔ذریعہ تعلیم کے ضمن میںپاکستان میں اب تک حتمی فیصلہ نہیں ہواہے، تاہم تمام نجی تعلیمی ادارے صرف نام کی حد تک انگریزی میڈیم ہوتے ہیں، اب انگریزی زبان میں وہ بچوں کو کس قسم کی تعلیم دیتے ہیں ، یہ نہ ادارے کے منتظم کوپتاہوتاہے اورنہ اساتذہ انگریزی زبان پر کماحقہ دسترس رکھتے ہیں۔
بس کتابوں اورلغات میں دیکھ دیکھ کر بچوں کو پڑھاتے ہیں اوران پر رٹہ لگاکرسبق یادکرواتے ہیں۔لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ ہرصوبائی حکومت اپنے اپنے صوبے کی سطح پر تمام تعلیمی اداروں کے لئے،خواہ وہ سرکاری ہیں یانجی ، پالیسی بنائے ۔ انکے لئے مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دی جائیں ،جواعلیٰ تعلیم یافتہ ،پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افراداورماہرین تعلیم پرمشتمل ہوں، جو سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کی نگرانی کرے اوراداروں کی کارکردگی کاجائزہ لے ۔ تمام نجی تعلیمی اداروں کے لئے فیس کی شرح قائم کرے اورغیرضروری بہ الفاظ دیگراضافی فیسوں پر پابندی عائد کرے، تاکہ تعلیمی اداروں میں کمرشلزم ،دکانداری اورتجارت کاتصورختم ہو۔
تحریر: ایم پی خان