تحریر: نعیم الرحمن
یہ بات نہایت تشویش ناک ہے کہ عموما پوری قوم اور خصوصا ہماری نوجوان نسل کتابوں سے خطرناک حد تک دور ہوتی جارہی ہے ۔ گو زمانے نے بہت ترقی کر لی ہے۔ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دود دور ہ ہے ۔ دنیا سکڑ کر عالمی گاؤں بن چکی ہے ۔ مگر میری دانست میں کتابیں اس وقت بھی علم کا سب سے بڑا منبع ہیں ۔ گویا کتابوں سے دوری علم سے دوری کے مساوی ہے۔
ہمارے طلبہ بھی کتابوں سے بھاگتے ہیں ۔وہ صرف اپنی نصابی کتابوں تک محدود رہتےہیں ۔ جس کی وجہ سے ان کی معلومات جمود کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ یہ کتابوں سے دوری کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہمارے طلبہ و طالبات میں تحقیق و تجسس اور شعور و آگہی جیسی حیات ِ جاوداں بخشنے والی چیزیں پروان نہیں چڑھتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آج کل کے طلبہ و طالبات علمی میدان میں کوئی بڑا کار ِ نمایاں سر انجام نہیں دے پاتے ۔
یہ کوئی سات آٹھ برس پہلے کی بات ہے ۔ میں نے ایک لائبریری میں بابائے اردو مولوی عبد الحق کی ” قواعد ِ اردو ” دیکھی ۔ اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو کرتا ہی چلا گیا ۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ تھی کہ جہاں یہ اردو کے بنیادی قواعد سے متعلق مستند معلومات پہنچاتی تھی ، وہاں یہ علم عروض کے بارے میں بھی مفید معلومات کی حامل تھی ۔ مولوی عبد الحق کا اسلوب بیاں بھی بہت خوب ہے ۔ شاید ان کی تحریر کا کچھ سحر بھی شامل تھا کہ میں اس کتاب کا فریقتہ ہوگیا ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مجھ پر پہلی بار یہ راز کھلا کے شاعری کے پیچھے بھی در اصل کچھ اس طرح کو کوڈنگ کام کر رہی ہوتی ہے
جس طرح ایک ویب سائٹ کے پیچھے ایچ ٹی ایم ایل ، جاو ا اسکرپٹ وغیرہ جیسی کوڈنگ کا م کر رہی ہوتی ہے ۔ بہر حال۔۔۔۔ میں نے لائبریری میں جاکر اس کتاب سے خوب استفادہ کیا ۔ مگر میں اس کتاب کو مستقلا اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا ۔ تاکہ وقت آنے پر کام آ سکے ۔میں اس کتاب کو خریدنے کے لیے اردو بازار گیا ۔ تین چار دوکانوں سے پوچھا ، مگر نہیں ملی ۔ پھر ایک دوکان سے پوچھا ۔ دوکان دار نے میری وضع قطع کا جائزہ لیا ۔ اس نے اپنے تجربے کی بنیاد پر انداز ہ لگا لیا کہ میں اسکول کا طالب ِ علم ہوں۔
حقیقت بھی یہی تھی ۔ لہذا اس نے اردو گرامر کی کوئی کتاب ، جو میرے خیال میں پرائیویٹ اسکول کے استاد چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کا اردو گرامر تیار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، تھما دی ۔ میں اسے دیکھتا رہا ۔ اور پھر میں نے وہ کتا ب اس کے حوالے کردی اور چلتا بنا ۔ظاہر ہے ، دوکان دار وہی کتابیں رکھیں گے ، جن کی مانگ ہوگی ۔ کتابوں کی بازاروں میں نصابی کتابوں کی مانگ ہے ، اس لیے وہی بکتی ہیں ۔ باقی کتابیں کوئی خریدتا نہیں۔
اس لیے دوکان دا رکھتے بھی نہیں ہیں ۔اگر “قواعد ِ اردو” ایسی کتابیں کوئی دوکان دار خرید بھی لے تو اسے نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے ۔ اسے اس نوعیت کی کتابیں سستے داموں بیچنی پڑتی ہیں ۔ یوں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ۔ لہذا ” عقلمند” دوکاندار ایسی کتابیں خریدنے کی ” غلطی ” کم کم ہی کرتا ہے ، جو دانش کا حقیقی منبع ہوتی ہیں ۔ یہ بات بھی تشویش ناک ہے ۔ ہم ایسی کتابوں سے دور ہو رہے ہیں ، جو معلومات کا اصل اور حقیقی منبع ہیں ۔ گو یہ کتاب مجھے بعد میں مل گئی ۔ مگر جتنی مشکل سے ملی ، وہ مجھے پتا ہے ۔
اردو پوائنٹ ڈاٹ کام کی ایک خبر کے مطابق: “کتابوں سے دوری کی وجہ سے نوجوان نسل اپنے اسلامی ، سیاسی ، مذہبی کلچر اور ادب سے بھی غیر مانوس ہونے لگی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق قدر ت اللہ شہاب ، احمد ندیم قاسمی، خواجہ حسن نظامی، ابوالکلام آزاد، چراغ حسن حسرت، میر تقی میر، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی ،واصف علی واصف کی کتابوں کے دوکانوں پر ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ مگر ان کو پڑھنے والا کو ئی نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق نوجوان نسل کی صرف 19 فی صد تعداد ہی کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتی ہے ۔ 60 فی صد سے زائد نسل انٹر نیٹ، فیس بک اور ٹوئٹر کی جانب مائل ہے۔ ”
ہماری نئی نسل ادب سے تو دور ہے ہی ، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ مذہبی ، سائنسی ، فلسفیانہ اور اس نوعیت کی دیگر کتابیں پڑھنے کی بھی کچھ زیادہ عادی نہیں ہے ۔ مجھے کندن لال کند ن کی “ارمغان ِ عروض ” اور “پس تحریر “( مصنف کا نام یاد نہیں ) کوڑیوں کے بھاؤ ملی ۔کیوں کہ یہ کتاب کوئی نہیں خرید رہا تھا ۔ “ارمغان عروض ” علم ِ عروض پر ایک جامع کتاب ہے ۔شعرا ء حضرات اس کتاب کی افدیت کے بارے میں بہ خوبی آگاہ ہوں گے۔ جب کہ ” پس ِ تحریر” میں اردو کے کچھ ادیبوں کا انٹر ویو تھا ۔جن میں ممتاز مفتی اور احمد ندیم قاسمی کا نام قابل ِزکر ہے ۔ یہ بھی بڑی معلوماتی کتاب تھی ۔جس میں مصنف نے ایک منفرد طریقے سے ارد و کے چند ادیبوں سے سوالات پوچھے تھے ۔
اسد مفتی روز نامہ جنگ کے کالم نگار ہیں ۔ عموما وہ عالمی موضوعات پر لکھتے ہیں ۔ میں ان کی تحریریں شوق سے پڑھتا ہوں ۔ 11 فروری 2015 ۓء کے اپنے کالم “کتاب مر نہیں سکتی” میں رقم طراز ہیں : “چند روز قبل کا واقعہ ہے ، میں نے اپنے چھوٹے بیٹے آدم کو مطالعہ کی اہمیت سمجھاتے ہوئے ٹیلی وژن دیکھنے سے پرہیز کی تلقین کرتے ہوئے کہا، “کتابیں پڑھنے کے لیے تمھیں وقت کب ملتا ہوگا ؟” بیٹے نے کہا ، “کتابیں پڑھنے سے کیا فائدہ پایا؟”
“اس سے آپ کا ذہن وسیع ہوتا ہے۔”میں نے جواب دیا ۔ آدم کا جواب تھا ، “وہی ساری چیزیں ٹی وی پر بھی ہیں ، چناں چہ ذہن ٹی وی دیکھنے سے بھی وسیع ہوتا ہے ۔” میں کہتا ہوں ، “کتابوں میں تمھیں بے شمار سائنسی معلومات اور ان کا احوال ملے گا ۔” بیٹا کہتا ہے ، ” سائنس ٹی وی پر بھی ہے ۔” میں پھر کہتا ہوں، کتابوں میں ادب ہے ، سیاست ہے ، صحافت ہے ۔ ثقافت اور تہذیبی سرمایا ہے۔”
آدم جواب دیتا ہے ، ” ایسی بہت سی چیزیں اور پروگرام جن کا تعلق ادب ، صحافت ، ثقافت ، سیاست ، تفریح اور تہذیب و تمدن سے ہے ، ٹیلی وژن پر بھی موجود ہیں ۔” بیٹے کو سمجھاتے ہوئے جب تنگ آجاتا ہوں تو کہتا ہوں ،”اس کے باوجود تمھیں کتابیں پڑھنی ہوں گی ۔” “وہ کیوں ؟” بیٹے نے پو چھا ۔ “اس لیے کہ ہم کتابیں لکھتے ہیں ۔” باپ کی زبانی یہ دلیل سنتے ہی بیٹا کہتا ہے، ” جب ہم کتابیں پڑھتے ہی نہیں ہیں تو آپ کتابیں لکھتے کیوں ہیں ؟” جدید دنیا کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم چلنے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہمیں کتابوں سے اپنا ناطہ جوڑنا ہوگا۔
تحریر: نعیم الرحمن