تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
ملک پاکستان کلمہ گو کے نام پر بنا تھا ملک کے آئین میں یہ بات واضح ہے کہ ملکی حاکمیت اور اس کے تما م احکامات اسلا می ہو نگے ،آئین کو لکھا گیا مورخ نے لکھا میرے سمیت قارئین نے پڑھا سب خاموش ہو گئے کتاب بند کر دی، لیکن سیاستدانوں نے اسلا می ممکت تو دور کی بات من مر ضی کے قوانین راتوں اسمبلی و سینٹ سے پاس کر وا کر ملک سا را نظام کو یر غما ل بنا رکھا ہے سرکاری ملوں سٹیل ملز ،کھاد فیکٹری اور اہم اداروں واپڈا ،پی آئی اے،ریلوے کو اونے پونے داموں اپنے عزیز رواقارب اور کاروباری دوستوں کو بیچ ڈالناہی کا نام نجکاری ہے دراصل حکمران کم قیمت پر قیمتی املاک بیچ کر خود سرمایہ ہڑپ کرنا چاہتے ہیں ۔مجھے اپنے ایمان کی آخری حد تک مکمل یقین ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سرمایہ داری سامراجی نظام یابے خداسوشلسٹی معیشت چل ہی نہیں سکتے۔
پاکستان اس دھرتی کے مسلمانوں کو خدا کی طرف سے عطیہ ہے۔ اور اس کا آفاقی نظام ہی یہاں پر چل سکتا ہے۔نجکاری کی تمام نام نہاد سکیموں کو مکمل طور پر مسترد کرکے سرکاری اداروں اور فیکٹریوں کا کنٹرول منتخب مزدور یونینوں کے حوالے کردینا ہی انتہائی مستحن اقدام ہو گا۔کیونکہ ایسے اقدام سے حکومتی کار پردازوں ،نام نہاد کرپٹ سیاستدانوں ،سود خور سرمایہ دار صنعتکاروں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ اسلئے یہ سارے لٹیرے ٹھگ منافع خورگروہ ایسے نظام پر غور ہی کرنے کو تیار نہ ہوں گے۔مگر دراصل ملوں اور اہم اداروں کی منتخب مزدور یونینیں انتہائی احسن انداز میں اپنے اپنے اداروں اور فیکٹریوں کا کنٹرول سنبھال کرانھیں منافع بخش بنا سکتی ہیں۔
اگر ایسی تمام فیکٹریوں اور اداروں کے مزدوروں اور ہمہ قسم ملازمین کو منافع میں سے 10فیصد کا حصہ دار بھی بنادیا جائے تو وہ انتہائی جانفشانی سے محنت کرکے اپنی اپنی فیکٹریوںا ور اداروںکی پیداواری صلاحتیوں اور کارکردگیوں کو بھی بڑھائیںگے۔تاکہ وہ 10فیصد کے حساب سے زیادہ سے زیادہ منافع کی رقوم حاصل کرسکیں ۔جس سے پسے ہوئے طبقات کے مزدوروںکی غربت کے دن بھی کٹ جائیں گے اور ملکی پیداوار میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔دوسری طرف پی آئی اے ،واپڈا،سٹیل ملز ،کھاد فیکٹریوں وغیرہ کی نجکاری کرکے پی ٹی سی ایل کی فروختگی (پرائیویٹائزیشن)کی طرح حکومت دوبارہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارے گی۔محکمہ ٹیلی فون ملک کے بجٹ کے زیادہ حصہ کی رقوم مہیا کرتا تھا۔مگراسے بیچ کرحکومت سخت خسارے میں رہی۔اور آج تک خون کے آنسو رو رہی ہے مگر کوئی پر سان حال تو کیا ہو گا۔آنسو پو نچھنے کوبھی تیار نہ ہے۔
نئے پرائیویٹائز کیے جانے والے اداروں کو خریدنے والاسود خور سرمایہ دار صنعتکار پیداواری صلاحتیں تو کیا بڑھائے گا وہ خود اناداروں کے ذریعے کم سرمایہ خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کما کربیرون ملک بنکوں میں دفن کرڈالنا چاہے گااس طرح سے یہ ادارہ یامل تو کیا چلے گی وہ تو کسی بھی وقت اس ادارے کی ساری ملکیتیں بیچ کر بیرون ملک زرداری کی طرح فرار بھی ہو جائے تو ہم لوٹے گئے غریب عوام اس کا کیا بگاڑ لیں گے۔نیا مالک پی آئی اے کا ہو یا سٹیل مل کا سفری کرایہ بڑھائے گا یاملوں کی پراڈاکٹس کے نرخ بڑھتے رہیں گے بالآخردنیا کے غلیظ ترین سودی سرمایہ داری نظام کے مروجہ قوانین کے مطابق حرام خور سرمایہ دار مالک ہی کمائے گا۔اور پورے ملک کے خریدار عوام لٹتے رہیں گے۔مہنگائی کاجن پہلے ہی اژدھوں کی طرح منہ کھولے کھڑا ہے۔
مگر نجکاری کے ذریعے مہنگائی کے ذریعے وہ طوفان بدتمیزی برپا ہو گا کہ الآمان والحفیظ۔دراصل مرکز اور پنجاب کے حکمران شریفین بلدیاتی اداروں کو پہلے ہی انجمن غلامان شریفین بنا چکے ہیں ان اداروں کی نہ کوئی اتھارٹی ہے نہ کوئی ان کے پاس کام کروانے کے لیے سرمایہ اب بھی یہ نجکاری کا ڈرامہ دراصل اپنے اور اپنی آئندہ سات نسلوں کے لیے سرمایہ کے ذخیرہ کرنے کامستقل ذریعہ ہے۔اسی طرح دیگر صوبوں کی برسر اقتدارسیاسی جماعتیں بھی اس اشنان سے مستفیض ہوکر بنک بھرنا چاہتی ہیں تاکہ اگر آئندہ عام انتخابات میں کوئی اونچ نیچ بھی ہو گئی تو زرداری کی طرح لٹو تے پھٹو پر عمل کرتے ہوئے بیرونی ممالک میں بنائے گئے فلیٹس اور محلوں میں باقی زندگی کے دن گزار سکیں ۔مزدور یونینوں کا کنٹرول والا نظام کسی لینن ۔مارکس یاہٹلر کا دیا ہو انہیں ہے
بلکہ محنت کش خدا کا دوست ہے کی طرح جو بنائے وہی کھائے والا اصول ہے اس کے علاوہ اور کوئی حل دور دور تک نظر نہیں آتا ۔ویسے بھی جو پی آئی اے یا سٹیل ملز کو خریدے گا وہ اس کے قرضے تو کیا اتارے گاوہ تو اپنے مال متال بنانے کے لیے خرید رہا ہے نہ کہ اس کے قرضے اتارنے کے لیے پا کستانی قوم کو کسی مسیحا جو انقلا ب لا سکے انتظار ہے کا یہ لازمی تقاضاہے کہ غربت بیروزگاری نا انصافی دور ہو اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتی ہے کہ جو محنت مزدور کرے اس کا بھر پور معاوضہ حاصل کرے۔اللہ کے فضل و کرم سے نجکاری سے ہمیں نجات مل گئی اور مزدوروں کی ملکیت سے خوشحالی آئی۔معیشت مضبوط ہوئی تو دہشت گردوں کو کارکن نہ مل سکیں گے اور ملک میں امن عامہ قائم ہو جائے گا۔ کر پشن زدہ حکمرا نوں سے جا ن چھوٹ سکے گئی اس کیلے ہمیں رنگ ،نسل فرقہ ،مسلک ،گروہوں و گروپوں کی سیاست کو دفن کر نا ہو گا۔
تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان