تحریر: نعیم الرحمان شائق
کسی ملک میں حکومت نے ایک ادارہ بنایا۔ اس پر خوب محنت کی گئی۔ اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیے خوب سرمایا لگایا گیا۔ کیوں کہ روزی روٹی کا مسئلہ تھا۔ بڑے لوگ سمجھتے تھے کہ محنت کریں گے تو کچھ ہا تھ لگے گا۔ سرمایہ خرچ ہوگا تو کچھ ملے گا۔ سو حکومت کی محنت رنگ لائی۔ ادارہ بن گیا۔ لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ۔یہ ادارہ کافی منافع بخش ثابت ہوا۔ اس نے کئی لوگوں کی روزی روٹی کا مسئلہ حل کیا۔ کئی خاندانوں کو سہارہ دیا۔ اس ادارے نے حکومت کو بھی فائدہ دیا، عوام کو بھی مالا مال کیا۔ وجہ اس کا معیار تھا۔ جس ادارے پر محنت کی جائے گی تو خود بہ خود اس کا معیار بن جائے گا۔ یہ معیار ہی تھا کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر اس ادارے کو مشہور کر دیا۔ دیگر ممالک کے ادارے، یہاں کے عملے سے مستفید ہونے لگے۔ یوں اس ادارے نے بہت سے ممالک کے دوسرے اداروں کو بنایا اور سنوا را۔ کہتے ہیں کہ محنت کا پھل ملتا ہے۔ بے شک ملتا ہے ۔ اس ادارے پر جس طرح محنت کی گئی، اس محنت نے اس کو ہر جگہ سر خرو کر دیا۔
وقت گزرتا گیا اور گزرتا گیا ۔ کیوں کہ وقت کا کام گزرنا ہی ہوتا ہے ۔ وقت کوئی روک نہیں سکتا ۔ رفتہ رفتہ محنت پر تسہل پسندی غالب آنے لگی ۔ پرانی حکومتیں چلی گئیں ، نئی حکومتیں آنے لگیں ۔ نئی حکومتوں میں محنت کی کمی اور تسہل پسندی کی زیادتی تھی ۔ نئی حکومتوں بھولتی گئیں کہ اس ادارے کو کتنی محنت اور جاں فشانی سے بنایا گیا تھا۔ انھوں نے اس ادارے کے سلسلے میں اپنی دل چسپیاں کم کر دیں۔
جب حکومتوں کی دل چسپیاں کم ہوگئیں تو ملازمین کی دل چسپیاں بھی کم ہونے لگیں ۔ تسہل پسندی کی سحر کاری تھی اور دل چسپیوں کا فقدان ۔۔۔ کہ اس کا معیار گرنا شروع ہو گیا ۔ جب معیار گرا تو بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ مجروح ہو گئی ۔ منظر بدلا تو بہت کچھ بدل گیا ۔ اب کوئی نہیں تھا ، جو اس ادارے کے عملے کو اپنا استاد مانتا یا اس سے کچھ سیکھتا ۔ کیوں کہ معیار گر رہا تھا ۔اب مقامی لوگوں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچنے لگی تھی ، جو اس ادار ے کے معیار کے قائل تھے اور لوگوں کو یہ بتاتے نہیں تھکتے تھے کہ ہمارے ملک میں ایک ایسا ادارہ ہے ، جس کے معیار پر کوئی حرف ِ تنقید آہی نہیں سکتا۔
وقت نے کچھ زغندیں اور بھریں تو منظریک سر بدل گیا ۔ اب یہ ادارہ مالی بحران کا شکار تھا ۔ یہ ادارہ اربوں روپے کا مقروض ہوگیا ۔ یہ اوروں کا پیٹ کیا بھرتا کہ اس کا اپنا پیٹ ہی خالی ہوگیا ۔ اب تو کوئی بہ مشکل ہی اس ادارے کے معیار پر کچھ نہ کچھ بھروسا کرتا تھا ۔ اس ادارے کی بد قسمتی تھی کہ یہ حکومتوں کی ترجیحات کو اپنی طرف مرتکز نہ کر سکا۔ ملازمین کا پیٹ خالی ہونے لگا ،ان کی تنخواہیں روکی جانے لگیں، ان کے گھر وں کے چولھے ٹھنڈے ہونے لگے تو وہ سراپا احتجاج بن گئے ۔ اول اول انھوں نے زبانی کلامی حکومتوں کو آگاہ کیا کہ ہمارے پیٹ خالی ہو رہے ہیں اور ہمارے گھروں کے چولھے ٹھنڈے ہونے لگے ہیں ۔لیکن کچھ نہ ہوا ۔ملازمین پہلے سے غم اور غصے میں مبتلا تھےکہ جلتی پر تیل چھڑک دیا گیا۔
ایک حکومت آئی اور اس ادارے کو فروخت کرنے کی بات کرنے لگی ۔ ملازمین کو حیرت ہوئی کہ جب حکومت ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتی تو وہ سرمایہ دار انھیں کیا دے گا ، جس کا کام ہی مزدوروں کے خون ِ جگر سے فصل ِ کاروبار کو سینچنا ہوتا ہے۔
مشاہدہ بینوں کو یہ بات پریشان کرنے لگی کہ یہ حکومت سڑکوں کی تعمیرات میں اربوں روپے خرچ کر رہی ہے ، لیکن اس ادارے کو دینے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ایک حکومت جب مالی بحران کا شکار ایک ادارہ نہیں سنبھال سکتی تو عوام کو کیا سنبھالے گی ۔ یہ حکومت دیگر ممالک سے اپنے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے نت نئے معاہدے کرتی ہے ، مگر اس ادارے کے نہیں سنبھال سکتی ۔ بلکہ اس کو بیچنے پر تلی ہوئی ہے۔
حکومت کے اس اقدام پر ملازمین سراپا احتجاج ہوگئے ۔ اب ریاست اور ملازمین کے درمیان تلخیاں اس حد تک بڑھیں کہ نوبت مار پیٹ تک آگئی ۔ یہاں تک کہ احتجاج کرنے والوں کوبھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔ حکومت بہ ضد تھی کہ ادارے کی نج کاری کرنی ہے ۔ اس نے اس کے لیے ہتھیار کا استعمال بھی کردیا ۔ اس خیال سے بے خبر کہ یہ اسی ملک کے باشندے ہیں ۔ اس خیال سے بھی بے خبر کہ اس سے اشتعال جنم لے گا ۔دوسری طرف ملازمین نج کاری نہیں چاہتی تھی۔
پھر اچانک سب کچھ بدل گیا۔ ادارے کے ملازمین کسی ‘مہربان’ کی کوششوں کی بدولت احتجاج سے کنارہ کش ہوگئے۔ حکومت نج کاری کرے گی یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب ہنوز تشنہ ِ تکمیل تھا کہ کسی مہربان کی کوششیں بار آور ثابت ہوگئیں ۔ بہ ظاہر حکومت جیت گئی۔ ملازمین ہارگئے۔ اب تو مشاہدوہ بینوں کے ذہنوں کو کئی سوالات ڈسنے لگے۔ سوالات کچھ اس نوعیت کے تھے : جب حکومت کی بات ماننی ہی تھی تو کیا ضرورت تھی احتجاج کرنے کی ؟ کیا ضرورت تھی اپنا جانی نقصان کرنے کی ؟ احتجاج سے اس ادارے کا مالی نقصان ہوا ، جو پہلے سے خسارے میں جا رہا تھا۔ کیا ضرورت تھی اس نقصان کا موجب بننے کی ؟؟
تحریر: نعیم الرحمان شائق
پتا: کراچی
ای میل:
shaaiq89@gmail.com
ایف بی:
fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq