counter easy hit

انعام

Poor Student

Poor Student

تحریر: آمنہ نسیم ،لاہور
حریم بہت سمجھدار اور ذہین بچہ تھاوہ اپنی کلاس میں سمجھداری اور ذہانت کی وجہ سے ہر استاد کا پسندیدہ بچہ تھا۔وہ ایک دسمبر کا سرد دن تھا جب حریم کو سکول سے چھوٹی ہوئی۔ چھٹی ہونے کے بعد تمام طالب علم اپنے اپنے گھروں کو جارہے تھے اس نے اپنے ہم جماعتوں کو دیکھا جو کوئی بائیسکل پے جارہاتھا کسی کا باپ گاڑی پر لینے آیا تھا سب بچوں نے نئے نئے سوئیٹر ،ٹوپی اور شوز سردی سے بچنے کے لیے پہن رکھے تھے گھروں کو جاتے ہوئے کوئی بسکٹ لے کر کھا رہا تھا کوئی چپس کھا کر مزے اڑا رہا تھا اسے اپنے گھر اتنی سردی میں پیدل ہی جانا تھا اس کے پاس سردی سے بچنے کے لیے اپنے ہم جماعتوں کی طرح نہ تو سویٹر تھا نہ ہی کوئی اچھے شوز تھے بسکٹ ،چپس کھانے کے لیے پیسے بھی موجود نہیں تھے اس نے یہ سب بہت حسرت سے دیکھا اور بے اختیار سوچا کہ میں کیوں غریب ہوں؟۔

میرے پاس پیسے کیوں نہیں ہیں ؟میں غریب خاندان میں کیوں پیدا ہوا؟مجھے ہی اللہ نے غریب خاندان میں پیدا کیوں کیا؟ میں کسی امیر گھر میں بھی توپیدا ہوسکتا تھا ؟اگر میں امیر گھر میں پیدا ہوتا تو آج میں اپنے ہم جماعتوں کی طرح سردی سے بچنے کے لیے سویٹر،شوز پہنتا اور جلدی سے بائیسکل ےا گاڑی سے گھر پہنچ جاتا اگلے ہی لمحے اسے خیال آیا کہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اللہ شکر ادا کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

Wallet

Wallet

وہ یہ سب سوچتے ہوئے جب گھر جارہا تھا تو اسے راستے میں اپنا دوست خرم بائیسکل پے اپنی طرف آتا ہوا نظر آیا لیکن وہ اسے نظر انداز کرتا ہوا جلدی سے گزر گیا جلدی میں اسکے پاس سے گزرتے وقت اس کا پرس سڑک پر گر گیا جیسے حریم نے سڑک پر گرتے ہوئے دیکھا لیا تھا سڑک پر اس کے سوا کوئی موجود نہ تھااس نے گرے ہوئے پرس کو اٹھا کے دیکھا تو اس میں پانچ سو کا نوٹ تھا۔

جیسے دیکھ کر وہ خوش ہوگیا کہ میں بھی اب ان پیسوں سے اپنے ہم جماعتوں کی طرح نیا سویٹر خرید وں گا اور اسے پہن کے جایا کروں گا اس نے سوچ لیاتھا کہ وہ اب خرم کو اسکا پرس واپس نہیں کرے گاوہ یہ سب سوچتے ہوئے گھر پہنچتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں جا کے خاموشی سے بیٹھ گیااس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا اسے اپنے ٹیچر کی کہی ہوئی بات یاد آنے لگی کہ جب تمہیں کوئی چیز ملے تو اسے اس کے مالک کو واپس کر دینی چاہیے اور ایسا کرنے کا انعام تمہیں اللہ تعالی دے گا۔

Kashmkash

Kashmkash

وہ اسی کشمکش میں تھا کی پرس واپس کرو یا نہ کرو اچانک اس کی ماں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اس نے دروازہ کھولنے سے پہلے پرس تکیے کے نیچے چھپا لیااس کی ماں نے اس کا پریشان چہرہ دیکھا اور روٹی نہ کھانے کی وجہ پوچھی تواس نے جواب دیا کہ میں ابھی آرام کرنا چاہتا ہوں اس کی ماں نے ماتھے کو چوما اور چلے گئی۔

یونہی کچھ دیر گزری تو اسے بھوک محسوس ہوئی اس نے سوچا کیوں نہ ان پیسوں سے بسکٹ لے کر کھا لیے جائے باقی پیسوں سے وہ صبح جرسی لے آئے گالیکن جونہی وہ گھر سے باہر آیا تو اسے اپنی ٹیچر کی بار باربات یاد آنے لگی گئی وہ یہ سب سوچتے ہوئے خرم کے گھر چلا گیا خرم اس کی والدہ نہایت پریشان بیٹھے ہوئے نظر آئے اس نے خرم کوساری تفضیل بتادی کی کہ کیسے اسے اس کا پرس ملا تھااس کے سارے پیسے پرس سمت ایمانداری سے واپس کردیے۔

Towakal Allah

Towakal Allah

اب وہ مطمین تھاکہ اس نے پرس اس کے مالک تک پہنچا دیا ہے جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کی ماں بے حد خوش تھی اس نے بتایا کہ اس کے سکول سے اس کی ٹیچر کا فون آیا تھا ٹیسٹ کا مقابلہ جتنے کی وجہ سے بطور انعام دس ہزار روپے دیے گئے ہیں وہ یہ سب سن کے بے حد حیران اور خوش ہوا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ وہ غلط طریقے سے پیسے خرچ کرنے سے بچ گیا جس کا انعام اللہ تعالی نے اسے مقابلے میں جتنے کی صورت میں عطاءکردیا اس نے ہمیشہ کے لیے ارادہ کر لیا کہ وہ کبھی بھی غلط طریقے سے کسی کے پیسے خرچ نہیں کرے گااور دوسروں کو بھی تلقین کرے گا اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرے گا کیونکہ یہی سیدھا راستہ ہے جس پر اللہ تعالی کا انعام عطاءکیا جاتا ہے۔

تحریر: آمنہ نسیم ،لاہور