تحریر:محمد آصف اقبال، نئی دہلی
گرچہ ملک میں رہنے افراد کے درمیان فکر و نظر اور مذہب و تمدن کے اختلافات پائے جاتے ہیں اس کے باوجود ملک کی ترقی و تنزلی میں تمام ہی افراد و گروہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔دوسری جانب ملک میں امن و امان قائم ہے یا نہیں؟ملک کی ہمہ جہت ترقی ہو رہی ہے یا مخصوص افراد و گروہ ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں؟مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان معاملات خوشگوار ہیں یا وہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے؟ملک کا عمومی جائزہ لیتے ہوئے اگر ان جیسے مسائل پر روشنی ڈالی جائے، تو دیکھنا چاہیے کہ مخصوص ملک کی اقلیتیں کن حالات سے دوچار ہیں۔اس پس منظر میں جب ہم ملک عزیز ہندوستان کا جائزہ لیتے ہیں، تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اقلیتیںمختلف سطح پر مسائل میں گھری ہوئی ہیں۔
اُنہیں مسائل میں ایک اہم مسئلہ حالیہ دنوں عیسائی برادری کی عبادت گاہوں پر حملوں کا ہے۔ان حملوں میں گزشتہ دنوں کچھ زیادہ ہی شدت اس وقت پائی گئی،جبکہ ایک مخصوص فکر سے وابستہ افراد نے 2021 تک ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا بیان دے ڈالا۔اس کے باوجود سوال برقرار ہے کہ حالیہ چند ماہ میں عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافہ کیوں ہوا؟کیااس کا تعلق مخصوص فکر سے وابستہ افرادہی سے ہے؟یا یہ ایک عمومی اور وقتی معاملہ ہے
جوگزشتہ دنوں بھی سامنے آیاہے؟وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں،لیکن یہ بات بطور شہادت موجود ہے کہ جب سے ملک کو 2021تک ہندوراشٹر بنانے کی بات کہی گئی،تب ہی سے ان حملوں یا حادثات میں اضافہ ہوا ہے۔جو نہ صرف ملک کے شہریوں بلکہ ملک سے باہر رہنے والے ہندوستانی NRIsکے لیے بھی تکلیف دہ اورقابل تشویش بات ہے۔حالیہ دنوں دارالحکومت دہلی میں عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر ہوئے حملے کے خلاف بڑے پیمانے احتجاج بھی ہوئے ہیں،وہاں موجود لوگوں کے کیا احساسات تھے ؟اور وہ کن خدشات کا شکار تھے؟آئیے اس پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں۔
“میں بہت پریشان ہوں اور مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے”۔یہ الفاظ سینتالیس سالہ عیسائی خاتون لینی کروبلا کے ہیں۔انھوں نے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا’مجھے ایک ہندوستانی عیسائی ہونے پر فخر ہے۔’لینی اُن سینکڑوں عیسائی افراد میں شامل تھیں جو دہلی میں حالیہ کئی عیسائی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔لینی نے اس سے پہلے کبھی کسی مظاہرے میں حصہ نہیں لیا ۔ لیکن اس بار وہ کہتی ہیں کہ انہیں سلامتی کے خدشات کے سبب احتجاج کے لیے باہر آنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
اپنے خدا کی عبادت کرنا میرا بنیادی حق ہے لیکن اس کا تحفظ حاصل نہیں ہے”۔لینی کے ساتھ پر امن احتجاج میں ایک اور خاتون سینسی بھی شامل ہیں۔وہ کہتی ہیں”اب ہم آزادی کے ساتھ عبادت نہیں کر سکتے۔ ہماری عبادت پر بھی اب سیاست کی جا رہی ہے”۔دہلی اور ملک کی کئی دیگر ریاستوں میں عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر حملے سے عیسائیوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔گذشتہ دنوں دہلی کے جنوبی علاقے وسنت کنج میں واقع سینٹ ایلفونسا چرچ میں تخریب کاری کے بعد عیسائیوں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ دو مہینے کے دوران دہلی میں یہ پانچواں چرچ تھا جس میں پراسرار طریقے سے رات میں توڑ پھوڑ کی گئی۔چند ہفتے قبل شہر کے دلشاد گارڈن میں ایک بڑا چرچ جل کر راکھ ہو گیا تھا۔
پولیس آج تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔وسنت کنج کے چرچ میں تخریب کاروں نے چرچ کے تبرکات اور عبادت کے ساز وسامان زمین پر پھینک دیے تھے اور پیسے اور کئی قیمتی اشیا کو ہاتھ نہیں لگایا گیا تھا لیکن پولیس کا کہنا ہے یہ چوری کا معاملہ ہے۔عیسائی برادری کو شک ہے کہ عبادت گاہوں پر حملے میں سخت گیر ہندو تنظیموں کا ہاتھ ہے۔ہندوستان میںفی الوقت عیسائیوں کی آبادی تقریباً تین فیصد ہے۔اور ان تین فیصد افراد کو صرف گرجا گھروں پر ہونے والے حملوں پر ہی تشویش نہیں ہے بلکہ بہار میں ہونے والے حالیہ جبری تبدیلی مذہب واقعے سے بھی وہ گھبرائے ہوئے ہیں۔بہار میں تقریباً 40 عیسائی خاندانوں کو ‘گھر واپسی’ کے نام پر دوبارہ ہندو بنایا گیاہے۔ جس کے نتیجہ میں عیسائی مزید خوف سے دوچار ہیں۔
حقوق انسانی کے قومی کمیشن نے وزارتِ داخلہ سے کہا ہے کہ وہ دارالحکومت کے گرجا گھروں میں رونما ہونے والے حادثات کی تحقیقات کرائے۔وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان واقعات میں کوئی گرفتاری کیوں نہیں ہو رہی ہے۔دوسری طرف دہلی کے پولیس کمشنر بی ایس بسی نے یقین دلایا کہ پولیس کسی طرح کی جانبداری سے کام نہیں لے رہی ہے،اور جلد ہی تحقیقات کے بعد شرارتی عناصر کو گرفت میں لے گی۔برخلاف اس کے عیسائیوں کے ایک ترجمان نے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر مودی حکومت ایک چھوٹی سی مذہبی اقلیت کے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتی تو وہ پورا ملک کیسے چلائیں گے۔
واقعہ کے پس منظر میں باراک اوباما کے بیان پر بھی نظر ڈال لی جائے توکچھ برا نہیں ہے۔وائٹ ہاؤس سے وہ کہتے ہیں کہ “آج اگر مہاتما گاندھی ہوتے تو عدم رواداری کے ان واقعات پر وہ سکتے میں آ جاتے”۔اسی سے ملتا جلتا بیان ہندوستانی دورے کے دوران بھی دے کر گئے تھے۔جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان اُس وقت تک ترقی کرے گا جب تک مذہب کی بنیاد پر ملک نہیں بٹے گا۔لیکن محسوس ہوتا ہے کہ سننے والے ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔
واقعات جو حملوں کی شکل میں سامنے آئے، متاثرین کے دکھ درد،احساسات و خدشات اور درمیان میں دیگر باتوں کا تذکرہ صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ سوچنے والے دل و دماغ اپنے دکھ دردکے ساتھ دوسروں کے دکھ درد اور پر یشانیوں میں بھی شامل ہوں۔پھر گلے لگ کر ایک دوسرے کے آنسوں نہ پوچھے جائیں بلکہ دستور ہندمیں موجود اقلیتیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز ہونا چاہیے۔یہ ذمہ داری ہندوستان میں موجود اقلیتوں کے اس بڑے گروہ پرعائد ہوتی ہے، جو گرچہ خود بے شمار مسائل سے دوچار ہے، اس کے باوجودوہ دوسروں کے مسائل کو بھینظر انداز نہیں کرتا۔لہذا مسلمانان ہند کو چاہیے کہ وہ دستور ہند کا اس لحاظ سے مطالعہ کریں کہ وہ خود اپنے حقوق و مطالبات منوانے کی پوزیشن میں آجائیں ساتھ ہی وہ دوسروں کو کیا تعاون دے سکتے ہیںاس پر بھی انہیں سوچنا چاہیے۔
اس پس منظر میں دستور ہند کا مطالعہ کرتے ہوئے اقلیتوں کے تعلق سے موٹے طور پر یہ دفعات سامنے آتی ہیں۔دفعہ ٢٥: (١) تمام اشخاص کو آزادیٔ ضمیر، اورآزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کا مساوی حق ہے ۔بشرطیکہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات متاثر نہ ہوں۔دفعہ ٢٦: اس شرط کے ساتھ کہ امن عامہ،اور صحت عامہ متاثر نہ ہوں ہر ایک مذہبی فرقے یا اس کے کسی طبقے کو حق ہوگا کہ:(الف) مذہبی اور خیراتی اغراض سے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا۔(ب) اپنے مذہبی امور کا انتظام خود کرنے کا ۔دفعہ ٢٧: کسی شخص کو ایسے ٹیکسوں کے ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گاجن کی آمدنی کسی خاص مذہب یا مذہبی فرقہ کی ترقی یا اس کو قائم رکھنے کے مصارف ادا کرنے کیلئے صراحتاً صرف کی جائے۔
دفعہ ٢٨: (١)کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جو بالکلیہ مملکتی فنڈ سے چلایاجاتا ہو کوئی مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی۔(٢) فقرہ (١) کے کسی امر کا اطلاق ایسے تعلیمی ادارہ پر نہیں ہوگا جس کا انتظام مملکت کرتی ہو لیکن جو کسی ایسے وقف یا ٹرسٹ کے تحت قائم کیاگیا ہو جو ایسے ادارہ میں مذہبی تعلیم دینا لازم قرار دے۔(٣) کسی ایسے شخص پر جو کسی ایسے تعلیمی ادارہ میں شریک ہو جو مملکت کا مسلمہ ہو یا جس کو مملکتی فنڈ سے امداد ملتی ہو لازم نہ ہوگا کہ کسی ایسی مذہبی تعلیم میں حصہ لے جو ایسے ادارے میں دی جائے یا ایسی مذہبی عبادت میں شریک ہو جو ایسے ادارہ میں یا اس ملحقہ عمارت واراضی میں کی جائے بجز اس کے کہ ایسے شخص نے یا اگر وہ نابالغ ہو تواس کے ولی نے اس کیلئے اپنی رضامندی سے دی ہو۔ثقافتی اور تعلیمی حقوق سے متعلق :دفعہ ٢٩: (١)ہندوستان کے کسی علاقہ میں یا اس کے کسی حصہ میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقہ کو جس کی اپنی الگ جداگانہ زبان، رسم الخط، یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کاحق ہوگا۔
(٢) کسی شہری کو ایسے تعلیمی ادارہ میں جس کو مملکت چلاتی ہو یا جس کو مملکتی فنڈ سے امداد ملتی ہو داخلہ دینے سے محض مذہب، نسل، ذات، زبان یا ان میں سے کسی بنا پر انکار نہیں کیاجائے گا۔دفعہ ٣٠: تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب کی بناپر ہوں یا زبان کی اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اوران کاانتظام کرنے کا حق ہوگا۔ (دستور ہند،حصہ ٣ بنیادی حقوق، ص:٤٦ـ٤٧) ان دستوری مستحکم ضمانتوں کے ساتھ دستور ساز اسمبلی میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اطمینان دلاتے ہوئے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ ان کے مفادات کا ان کے اطمینان کی حد تک خیال رکھا جائے گا اور اسے اسٹیٹ ایک مشن یعنی کاز کی حیثیت دے گا۔پس ان ہی دفعات کی موجودگی میں کرنے کا کام یہ کہ اقلیتوں کے تعلق سے دستور ہند میں موجود یقین دہانیوں کو عملی شکل میں نافذ کروانے کے لیے ایک کامن پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے۔سوال پھر اٹھے گا کہ بیڑا کون اٹھائے ؟تو عموماً وہی لوگ بیڑا اٹھاتے ہیں جو تعداد اور مسائل میںہر دو سطح پر پیش پیش ہوں!
تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com