تحریر: مقصود انجم کمبوہ
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم پڑوسی ممالک باہم امن و سکون سے رہیں اور بین الاقوامی برادری میں اپنا صحیح اور درست مقام حاصل کریں ۔ پاکستانی اس بات کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کہ امن و سلامتی کی کوئی معقول اور ٹھوس راہ ملے اور ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی دوست ممالک بھی ایسی پیشکش کو جو ہمارے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اکثر اپنی تقاریر میںاپنے پڑوسی ملکوں کو دیتے آ رہے ہیں قبول فرمائیں۔ ایک فرد کی معاشرتی ذمہ داری اور قوموں کی برادری سے تعلقات کے ضمن میں ایک مملکت کے فرائض کے درمیاں خط متوازی کھینچا جا سکتا ہے ۔ جس طرح کوئی مملکت اپنے شہریوں کی بھرپور شرکت اور تعاون کے بغیر اپنے عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتی اسی طرح بنی نوع انسان کے لیے اچھے اور محفوظ مستقبل کا مقصد بھی اس وقت تک حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔
جب تک کہ تمام پڑوسی ممالک مل جل کر کام نہیں کرتے قانون کی حکمرانی ہماری زندگی اور سماجی نظام کا ناگزیر جز ہے ۔ آمریت کے تحت زندگی گزارنے والوں کے لیے قانون کی حکمرانی کو ہمیشہ خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے ۔ آزادی کے لیے شرط لازم ہے کہ جمہوری عمل کے ذریعے قانون اپنایا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اس سلسلے میں اولین مسئلہ انسانی حقوق اور ان پر عمل درامد کا ہے ۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو پاتا انتہا پسندی کا عنصر ختم نہیں ہو سکتا اور کوئی حکمران اس مسئلہ پر اصولوں سے ہٹ نہیں سکتا ۔
بھارت کے ساتھ اصل تنازع کشمیر ہے ۔ کشمیر کی آزادی کے بغیر دوستی کی پینگیں آگے نہیں بڑھ سکتیں ہم نہیں چاہتے کہ اب کوئی بڑا تصادم جنم لے۔ پہلے ہی ہم اس مسئلہ پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے مختلف نوع کے منفی ہتھکنڈے استعمال میں لا رہے ہیں بہت ہو چکا خونی تصادم اب ہمیں حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیئے اس بات کی بہت خوشی ہوئی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سرپرائز وزٹ پر پاکستان آئے ایک دوسرے سے گلے ملے اور اس امر کی فضا نے جنم لیا کہ اب ہم مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کر پائیں گے مگر افسوس کہ دوسرے تیسرے روز ہی پٹھان کوٹ کا سانحہ رونما ہو گیا ۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ کس نے کیا کیا تجزیہ نگاروں نے تو اس سانحہ پر بہت سے بت گڑھ لیے ہیں ۔
اگر ہم اسی ایشو پر بات کریں تو بیل منڈے نہیں چڑھ سکتی ۔ معاملہ اور بگڑتا جائے گا ۔ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بہت سے خدشات جنم لے رہے ہیں ۔ ہماری انٹیلی جنٹ ایجنسیوں نے بھارتی مداخلت کے کئی ایک ٹھوس ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں ۔ اس سے بیشتر بھی وزیر اعظم نے کئی بار بھارتی وزیر اعظم کو بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوتوں کے بارے میں بات چیت کی ہے ۔ امریکی ایجنسیوں نے بھی متعدد بار ایسی مداخلت پر انگلی اٹھائی ہے گو وہ بھارتی دوستی کو اس تنازعے میں گم ہونے نہیں دے پا رہا ۔
یہ بھی سچی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی دہشت گردی اورجرائم کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ بات قانون کی خلاف ورزی سے کہیں آگے نکل چکی ہے ۔ فرانس میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ ہتھیاروں کی غیر قانونی تجارت پر بطور تشویش ہے علاوہ ازیں ٹیکنالوجی ، مہارت اور عام ہلاکت کے ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار مواد کی غیر قانونی تجارت بھی شدید تشویش کا باعث ہے ۔ مثلاً شرف انسانی جسے ہمارے آئین میں باقی سب باتوں پر ترجیح دی گئی ہے یعنی انسانی حقوق ، اقلیتوں کا تحفظ ، کسی ملک کی مزید ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم سے بچانے کے لیے اہم احتیاطی تدابیر ہے ۔ انسانی حقوق اور اقلیتوں کا تحفظ کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے ۔ کسی بھی ملک کا حکمران طبقہ یا گروہ ان حقوق کو ختم نہیں کر سکتا ۔ بین الاقوامی قانون کی پابندی ہر قوم اور ملک کے لیے لازم ہے ۔ منظم گروہوں کے بین الاقوامی جرائم حد سے بڑھ جانے سے دو فریقوں میں تنائو بڑھ رہا ہے ۔ ہم بھارت پر شک و شبہ کرتے آ رہے ہیں جبکہ بھارتی حکمران پاکستان پر انگلیاں اٹھاتے نہیں تھکتے ۔ نتیجہ تنائو بڑھنا فطری عمل ہے ۔
اسی لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب پڑوسی ممالک مل بیٹھ کر باہم مشورے سے بنی نوع کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا لائحہ عمل واضع کریں ۔ ہتھیاروں اور منشیات کے گھنائونے دھندے اور ان سے حاصل ہونے والی بے پناہ دولت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات و خدشات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پڑوسی ممالک جس میں ایران ، بھارت ، افغانستان ، روس اور چین تمام ممالک ان خطرات کے سدِ باب کے لیے بین الاقوامی سطح پر مل کر کام کریں ۔ اسی میں ہم سب کی بہتری اور فلاح ہے ۔ ہم نے دو عالمی جنگوں کے نقصانات دیکھ لیے ہین اس تاریخی حقیقت سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیئے ۔ اب ہماری کمزوریوں اور بڑھتے ہوئے تنازعات سے تیسری عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔
ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے جنگیں کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کر سکیں ۔ جرمن اور جاپان کے شہریوں اور حکمرانوں سے پوچھیے وہ ہمیں پر امن رہنے کی تلقین کریں گے ۔ چین عرصہ دراز سے ہم دونوں پڑوسیوں کو تنازعے ختم کرنے کا سبق دیتا آ رہا ہے ۔ چینی حکمرانوں نے ہمیشہ یہی درس دیا ہے کہ اقتصادیات و معاشیات کی ترقی کے لیے کام کرو جنگی جنون کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دو مگر افسوس کہ ہم ایک دوسرے کو نفسیاتی مریض بنانے پر تل گئے ہیں ۔ بھارت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ اس کے منفی ہتھکنڈوں سے پاکستان کی ترقی و خوشحالی پر تو آنچ آ سکتی ہے مگر صفحہ ہستی سے مٹانے یا اس پر بزور شمشیر قبضہ کرنے کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو پائے گا ۔
تحریر: مقصود انجم کمبوہ