تحریر:شاہ بانو میر
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
ایسے وقت میں جب مسلمانوں کو بڑے بڑے عالموں نے علاقوں جماعتوں گروہوں میں بانٹ دیا ہے ایسے کٹھن حالات میں مولانا طارق جمیل جیسے عالم دین بھی موجود ہیں جن سے جب جب گفتگو ہوتی ہے گویا ذہن کو جِلا مل رہی ہے٬ دل کو سکون اور دماغ کو تقویت کا بھرپور احساس٬ تنفر سے پاک لہجہ ٬ درد بھرا انداز ٬ خلقِ خُدا کو صراط مستقیم پر لانے کی سعی ٬ زندگی گویا جدوجہدِ مسلسل ہے گھر اہل و عیال کے ہوتے ہوئے کئی کئی مہینے دور دراز علاقوں میں اللہ کے لئے بھٹکنا کبھی جنگل بیابان کبھی صحرا و دریا عبور کرنا ہم جیسے ناعاقبت اندیش یہی سمجھتے ہیں کہ ان کو یورپ میں دیکھا ہے تو بس یہ یہیں آنا پسند کرتے ہیں٬
ہم لوگوں کی زندگی عمل سے خالی کھنکتا ہوا وہ برتن ہے جس میں لفظوں کا خالی پن شور پیدا کرتا ہے٬ اسی لئے نہ تو تحقیق کرتے ہیں اور نہ تدبر بس کہہ دیتے ہیں٬ جو انسان تحقیق کرتا ہے اس کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ یورپ کے ٹور کے علاوہ سال بھر مولانا اور ان کے ساتھی پوری دنیا میں اسلام کا نور پھیلانے کیلیۓ پہنچتے ہیں٬
اس سفر میں صرف تکلیف ہے پریشانی ہے٬ مشکلات ہیں ٬ مسائل ہیں ٬ گھروں سے دور رنگ و بو روشنیوں سے پرے بہت دور بھی جانا ہوتا ہے٬ جہاں آج بھی اندھے عقائد توہمات کی بھرمار ہے٬ جہاں جادو ٹونے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے٬ جہاں تعلیم اور خاص طور سے دینی تعلیم کے فقدان نے دور اسلام سے پہلے کا جاہلانہ نظام رائج کر رکھا ہے٬ صفائی کا پاک احساس جو اسلام نے دیا جس سے پاکیزگی کا تصور راسخ ہوتا ہے اور وجدانی کیفیت کی مزید بہتر نشونما ہوتی ہے٬ وہ یہاں ناپید ہے٬
موجودہ دنیا کی بھیڑ بھاڑ سے بہت دور جنگلوں میں بسنے والے یہ لوگ جانوروں کی سی زندگی گزار رہے ہیں ٬ سہولیات کے فقدان اور تعلیم سے عاری ان کی زندگی جب ہماری دنیا میں بسنے والے دینی حضرات کھوجتے ہیں تو عجیب حالات سے واسطہ پڑتا ہے٬ جس میں ایک عام انسان گھبرا کر واپس پلٹ جائے٬ لین سنتِ محمدیﷺ پر چلنا اتنا آسان ہوتا تو کیا ہی بات تھی٬ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اور طریقوں پر چلنے والے ہمیشہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں ٬ لیکن ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آتی٬ اور جب وہ ان دنیاوی پل صراط کو برق کے کوندے کی طرح اپنے عمل کی پختگی سے عبور کر جاتے ہیں
تو وہ عام انسان نہیں رہتے ان کی روحانی تربیت کا ایک مشکل مرحلہ اختتام پزیر ایسے ہوتا ہے کہ وہ مولانا طارق جمیل صاحب کی طرح سنت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر جم کر چلنے اور دین اسلام کے پھیلاؤ کا باعث بننے کیلیۓ آہنی عزائم کے ساتھ فولادی سوچ لے کر نکلتے ہیں ٬ ہر سال کی بے پناہ مصروفیت کی طرح اس سال بھی سال کے اوائل میں مولانا طارق جمیل صاحب افریقہ کے سفر پر روانہ ہوئے٬
راستے کی مشکلات ٬ غیر یقینی حالات ٬ سہولیات سے عاری افریقہ کے گاؤں ٬ انجانی زبان اور جنگلوں میں بسنے والے یہ قدرے مختلف انسان ٬ ایک مشکل چیلنج ضرور تھا ٬ لیکن اپنے مخصوص انداز میں دھیمے دھیمے بولتے ہوئے ان کے الفاظ سحر طاری کر دیتے ہیں٬ زبان نہ بھی آئے لیکن بولنے والے کے چہرے کی شفقت آواز میں موجود مدوجزر ٬ حلیمانہ انداز جاہل سے جاہل کو بھی موم کر دیتا ہے٬ کلام میں بیان میں تاثیر کیلیۓ اگر رائے شماری کروائی جائے تو اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ مولانا صاحب سر فہرست دکھائی دیتے ہیں٬
مولانا صاحب کو امت کا ایک ہی درد ہے اخلاقیات کھو دینے والی یہ امت نجانے کہاں جا پہنچے گی٬ معاشرت کی بگڑتی ہوئی شکل صرف اس وجہ سے ہے کہ نے خلائق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلا دیے٬ غیر اسلامی شعائر کو اپنا کر اپنے دین سے اپنے اصل سے جدا ہو کر نجانے کن بھول بھلیوں میں گم ہو گئے٬ آج بھی اگر امت مرحوم کو از سر نو تازہ روح پھونکنی ہے تو ہمیں واپس پلٹنا ہوگا ٬ اور پھر سے ٹوٹے ہوئے سلسلے کا وہیں سے آغاز کرنا ہوگا جہاں سے منقطع ہوا تھا٬
مولانا صاحب اس بات پر بہت مسرور تھے کہ ایک بار پھر وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کیلیۓ دور دراز کا طویل صبر آزما کٹھن سفر کر کے کچھ نہ کچھ تو فرض ادا کر آئے اس بار ان کا سفر 8 ممالک پر محیط تھا جن کے نام درج ذیل ہیں ٌ زمبیا ملاوی موزمبیک سوازی لینڈ زمباوے کینیا تنزانیہ زنجبار
پھر وہاں سے واپس کینیا ممباسا نیروبی گئے
واپس دوبئی آئے اور دوبئی سے پاکستان پہنچے
مولانا صاحب کا فرمانا ہے کہ افریقہ کے اس سفر میں جو عجیب چیز ہے وہ ہے کہ پچھلی صدیوں میں یہ ممکن نہیں تھا ٬ اب ممکن ہوا کہ جنگلوں میں جا کر پیغام پہنچایا جائے٬ اس سلسلے مین تبلیغی جماعت باقاعدہ ایک روٹ طے کرتی ہے جس میں قافلے تیار ہوتے ہیں ٬ جان و مال کے ساتھ صرف اللہ کی رضا اور دین کے پھیلاؤ کیلیۓ خالصة یہ دشوار گزار راستہ چنا جاتا ہے٬
تا کہ جو انسان نما مخلوق وہاں آباد ہے اس تک اللہ کا فرمان پہنچا کر اس کے شعور کو بیدار کر کے اس کے ذہن کو بیدار کر کے اشرف المخلوق کی صفت تک پہنچایا جائے یہ طویل سفر پر مبنی ایک جماعت ہوتی ہے جو ایک سال یا 7 ماہ کیلیۓ جاتی ہیں 1 ماہ یا دو مہینے پاکستان میں گزارتے ہیں باقی تمام مہینے سفر کی حالت میں رہتے ہیں٬ ایسے ہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے ابھی تک اسلام کا پھیلاؤ کرہ ارض پر جاری و ساری ہے٬
ان کے راستے میں بڑے بڑے شہر نہیں ہوتے جہاں ضروریاتِ زندگی کی فراوانی ہے بلکہ ان کو بسا اوقات پیدل چلنا ہوتا ہے اور کہیں کہیں گاؤں ملتے ہیں جہاں یہ قیام کرتے ہیں اور پیغام پہنچاتے ہیں ٬ دورانِ سفر اگر کہیں چار گھر بھی ہوں تو وہاں رک جاتے ہیں یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں مساجد نہیں ہوتیں تو یہ درختوں کے نیچے پڑاؤ ڈال لیتے ہیں اور تبلیغ کا آغاز کر دیتے ہیں٬
یہ کام آسان نہیں بہت مشقت کی زندگی ہے٬ ان علاقوں میں اب بھی بہت غربت ہے ٬کلیسا نے اپنا دین پیسے کی بنیاد پر پھیلایا ان کے پاس کوئی بنیاد تو ہے نہیں ٬ صرف پیسہ ایسی طاقت ہے جس نے ان کے دینی پرچار کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا کر اپنے فرض ادا کر دیے٬
بد نصیبی سے ہم لوگ ابھی اس معاملے میں بہت پیچھے ہیں اگر تڑپ ہوتی اور ہمارا رحجان اسلام کے فروغ پر ہوتا تو شائد یہ جنگل بھی اللہ اکبر کی روح پرور صداؤں سے مساجد کی موجودگی مین گونج رہے ہوتے٬ اور یہاں انسان یوں آلائش میں لتھڑے زندگی نہ گزار رہے ہوتے ٬ بدبو کی جگہہ ان کے گھرانے صاف ستھرے ہوتے٬ جب سے تبلیغی سفر شروع ہوئے جب سے ان پسماندہ لوگوں تک باقاعدہ رسائی ہوئی ہے یہی وجہ ہے اب کسی نہ کسی جماعت کی مد سے ان کی طرز معاشرت قدرے تبدیل ہو رہی ہے٬ وجہ یہ ہے کہ اب ان کا شعور بڑھا ہے٬ اور وہ اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں ان ممالک میں یوں پھرنا بہت مشکل ہے
ملاوی میں ایک جماعت تھی جس میں خواتین عورتیں اپنے خاوندوں کے ساتھ چل رہی ہوتی ہیں دورانِ سفر اگر کوئی گاؤں آجائے تو جماعت وہاں قیام کرتی ہے٬ خواتین کیونکہ باحجاب ہوتی ہیں٬ ان کیلیۓ بہت سخت مرحلہ ہوتا ہے٬ ماحول کی سختی نقاب اور بنیادی سہولیات کا نہ ہونا ٬ ئ لیکن اللہ کی رضا کی متلاشی یہ خواتین مشکل حالات میں بھی خود کو کمزور نہیں پڑنے دیتیں جن گھروں میں ان کو ٹھہرایا جاتا ہے وہ عموما ایک کمرہ پے مشتمل ہوتے ہیں٬ وہاں بدبو سے دماغ پھٹا جاتا ہے ٬
سانس لینا دوبھر ہوتا ہے٬ لیکن اس کے باوجود یہ جماعت وہاں مقررہ مدت گزارتی اور اپنے اخلاق سے عمل سے ماتھے پے شکن لائے بغیر ان کو تبلیغی پیام پہنچاتی ہے٬ ان کے ساتھ ان کی طرح کا کھانا پینا بہت مشکل مگر سب کرنا پڑتا ہے کیونکہ مقصد بہت بڑا ہے ٬ جس کے حصول کیلیۓ سب کو اپنی ذات کی نفی کرنی پڑتی ہے٬
اس طرح یہ قافلے سفر کرتے ہوئے دور دراز مقامات تک جاتے رہے جس کے نتیجے میں آج یہاں شعور بیدار ہو چکا ہے اور عورتوں مردوں میں دین کا شوق پیدا ہو چکا ہے ٬ جس کا عملی ثبوت وہ مکاتب ہیں جو چھوٹے ہیں لیکن یہاں علم کا نور پھیلا رہے ہیں٬
اب ان کے بچے پڑھ رہے ہیں یہاں بھی بے راہ روی ایسی ہی ہے جیسی یورپ میں ہے
اس کے سد باب کیلیۓ ہم کوشاں ہیں٬ دورانِ سفر کینیا میں ایک قابل ذکر واقعہ ہوا ٬ ایک پاکستانی خاندان تھا جن کی دو بیٹیوں نے ہندوؤں سے منگنیاں کر لی تھیں اور ایک ہفتے بعد باقاعدہ فنکشن ہونے والا تھا٬ ان کے والد اس صورتحال پے سخت دلگرفتہ تھے٬ وہ ان بچیوں کو بیان سنانے لائے٬ اور مجھے بعد میں بتایا گیا٬ کہ اللہ پاک نے بیان ے بعد ان کی دنیا تبدیل کر دی نہ صرف ان بچیوں نے اپنے موبائل توڑ ڈالے بلکہ والدین سے معافی مانگ کر ان کو کہا کہ جہاں آپ مناسب سمجھیں وہاں شادی کر دیں٬
سبحان اللہ کیونکہ وہاں رشتوں کا بہت مسئلہ ہے اس لئے ہندؤوں سے شادی کوئی معیوب بات نہیں ہے کینیا میں تنزانیہ میں ایک واقعہ ہوا وہ ایک ایتھیسٹ تھے صاحب حیثیت انسان تھے پاکستان سے تشریف لائے تھے٬ وہ بیان میں آئے دوسرے دن ان کی فیس بک پے لکھا ہوا مجھے دکھایا گیا کہ انہوں نے توبہ کی اور لکھا کہ
میں دوبارہ سے مسلمان ہو گیا مولانا طارق جمیل کی وجہ سے چالیس دن کے اس قیام میں مختلف بیانات ہوئے دنیا بہت دور دور سے بیان سننے آئی اس بار بھی کسی نے سود چھوڑا کسی نے شراب چھوڑی
اور سچے دل سے اپنے ربّ کے حضور توبہ کی کینیا میں پاکستانی کافی مضبوط مالی حیثیت میں ہیں مولانا صاحب کے تعارف کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگ آئے مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نےسنا تو کہا کہ ایسا بیان ہو تو یقینی طور پے تفرقہ باز ختم ہو سکتا ہے دین کو گروہوں میں منقسم کر دیا گیا ہے آج بہت ضرورت ہے اسی اصول پر اسلام کو پھیلانے کی٬ زمباوے والوں کا ایک علاقہ کافی دور دراز تھا٬ وہاں لوگوں کا اصرار اور لے جانے والوں کا جزبہ ایسا تھا کہ
بیان کیلیۓ الحمد للہ انہوں نے چارٹرڈ جہاز کروایا ایک روز کیلۓ بیان سنوایا اور دوسرے روز واپس بھی اسی جہاز واپس لائے زمباوے میں ایک ڈاکٹر تھے انہوں نے ای میل کی٬ انہوں نے لکھا ای میل میں کہ میں آپکی وجہ سے دوبارہ مسلمان ہوں سوزی لینڈ میں گھر کی زندگی معاشرت بیان کرتا ہوں وہاں ایک فیملی کا جھگڑا تھا ایک دوسرے سے جدا تھے لیکن وہ بیان میں آیا اللہ پاک نے اس کے دل میں جمی گرد کو بیان کی روشنی سے دھو ڈالا اپنی غلطی کا احساس ہوا اور جا کر اپنی بیوی کو منا کر لے آیا٬
مولانا طارق جمیل صاحب موجودہ دور کے وہ عالم جن کا صرف ایک پیغام صرف ایک درد بھری التجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق اپنائیں ان کا کہنا ہے کہ عبادات کے خانے میں کچھ نہ کچھ تو نمبرز ہیں لیکن اخلاق نبوت میں سب کے دامن خالی ہیں یہ دامن اگر بھر جائیں تو ہم امت وسط ہونے کا اصل حق ادا کر دیں گے معاف کر دینا اعلیٰ ظرفی ہے آج ہم سب کو اپنی زات کی اصلاح اور دوسروں کیلیۓ اس کی اشد ضرورت ہے٬ آئیے دعا کریں کہ اللہ پاک مولانا طارق جمیل صاحب کی کوششوں پر چلنے والا بنا کر ہمیں اپنے رب سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے مضبوطی سے جوڑ دے آمین بلاشبہ مولانا طارق جمیل صاحب آج کے دور میں ہم سب کیلیۓ اللہ پاک کا خاص تحفہ ہیں
تحریر:شاہ بانو میر