تحریر:مسز جمشید خاکوانی
ہلاکو نے بغداد کو تاراج کر لیا تھا خون مسلم ایسا ارزاں ہوا کہ تاتاری فوج کے گھوڑوں کے سم خون میں ڈوب گئے تھے۔ ۔مسجدوں کو اصطبل بنا دیا گیا ۔۔کتب خانے جلا دیئے گئے ۔۔۔وحشت اور درندگی کا راج قائم کر دیا گیا تھا ۔۔۔اس لیئے کہ امت مسلمہ خرافات میں کھو گئی تھی کہا جاتا ہے کہ جب ہلاکو کی فوج بغداد میں داخل ہورہی تھی تو بغدادکے اہل علم میں کوے کے حرام و حلال ہونے پر بحث جاری تھی ۔۔۔۔
ہلاکو کی بیٹی مفتوحہ بغداد کے کوچہ و بازار میں نکلی تو ایک جگہ اس نے لوگوں کا ہجوم دیکھا ۔۔ معلوم ہوا ایک عالم لوگوں سے مخاطب ہے ہلاکو کی بیٹی نے گفتگو کے اختتام کا انتظار کیا ۔۔۔ اس عالم دین کو اپنے پاس بلایا اور سوال کیا یہ بتائو کہ حکمران ہونے کے لائق ہم ہیں یا تم ؟جواب دیا گیا ” بے شک آپ’ اسی لیئے تو آپ حکمران ہیں ۔”
تو پھر یہ بتائو ہمارا دین (نظام زندگی ) بہتر ہوا یا تمھارا ؟۔۔۔۔۔ ” دین تو ہمارا ہی بہتر ہے ” جواب دیا گیا ۔” یہ الگ بات ہے ہم اس کے تقاضے نہیں پورے کر رہے تھے جس کی ہمیں سزا ملی ہے اب آپ آ گئے ہیں ہماری سزا مکمل ہو جائے گی ۔پھر ہم غالب آ جائیں گے ۔وہ کیسے؟ ہلاکو کی بیٹی نے پوچھا۔۔ آپ نے کبھی کسی چرواہے کو اپنا ریوڑ سنبھالتے دیکھا ہے ؟عالم نے سوال کیا ۔۔ ہاں ہاں !” ہلاکو کی بیٹی نے جواب دیا ۔۔آپ نے دیکھا ہوگا عالم نے کہا ۔” جب ریوڑ چرواہے کی نہیں سنتا بے قابو ہونے لگتا ہے تو چرواہا اپنے کتوں کو اشارہ کرتا ہے ۔وہ ریوڑ سے بچھڑنے والے جانوروں کا پیچھا کرتے ہیں ۔انھیں زخمی کرتے ہیں ۔انھیں تھکا مارتے ہیں ۔یہاں تک کہ انہیں ریوڑ میں واپس لے آتے ہیں جب ریوڑ منظم ہو جاتا ہے تو کتوں کا کام ختم ہو جاتا ہے ۔”
اہل بغداد کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ۔اور جب ان کو عقل آئی تو سرکش اور وحشی تاتاریوں کو دین کا شعور عطا کیا اور وہ مسلمان ہو گئے ۔۔۔۔ یورش تاتار ۔۔رحمت الٰہی بن گئی ۔۔تاتاریوں کو تائید ایزدی حاصل ہوئی تو کعبہ کو صنم خانے سے پاسبان مل گئے آج پھر امت مسلمہ انتشار کا شکار ہے ،خوف کے سائے ہیں ،بد اعتمادی اور بے یقینی کی فضا ہے ،آدمی ،آدمی سے ڈرنے لگا ہے ،اب اس سے آگے بھلا کیا ہو گا ؟سو اسی شر سے خیر کا جنم ہو گا ،اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہوگا ،اپنی ثقافت کا شعور دیں پ کو پتہ ہی نہیں آپکے بچے ” چھوٹا بھیم ” بن چکے ہیں ۔جس ” شکتی ” کے زیر اثر وہ آ چکے ہیں وہ انہیں اپنے دین سے ہی نہیں اپنی قومی شناخت سے بھی دور کر رہی ہے ۔ہمارے دین سکھانے والے مال کی چاہ میں پھنس چکے ہیں یا پھر قتال و جدال کے فتوے دے رہے ہیں۔
حالانکہ قرار داد مقاصد جو ہر مکتبہ فکر کے اکتیس علماء نے متفقہ طور پر پیش کی تھی پاکستان کے ہر آئین کی بنیاد ہے ،لیکن انہی علماء کے بعض نا خلف پیروکار فروعی مسائل میں فقہی اختلافات کی آڑ لے کر نفاذ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں ۔قران و حدیث کے احکامات امت مسلمہ میں اتفاق و اتحاد کی علامت ہیں لیکن اپنی ڈیڈھ اینٹ کی الگ مسجد بنا نے والے خود غرض علمائے سوفقہی اختلافات کا سہارہ لے کرقوم میں فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں ۔اور اس سے انکی غرض دین کی کوئی خدمت نہیں محض اپنی اپنی انا کی تسکین اور اپنی اپنی چودھراہٹ کی بحالی ہے۔
ہمارے خالص دینی مدارس بھی خواہ وہ کسی مکتبہ فکر سے متعلق ہوں فقہی تقلید کی جکڑ بندیوں میں مقید ہیں جو آٹھ سالہ نصاب ان مدارس میں پڑھایا جاتا ہے اس میں پہلے چھ سال تک طلبہ کو مخصوص فقہی مسائل پر پختہ کیا جاتا ہے اور جب ان کا ذہن اس مخصوص سانچے میں ڈھل جاتا ہے تو آخری دو سالوں میں انہیں قران و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے جس کو وہ اپنے مخصوص ذہنی سانچے کے مطابق ہی سوچتے اور اس سے اپنے خاص فقہی مکتب فکر کے مطابق مسائل اخذ کرتے ہیں ۔اور یہی فارغ التحصیل طلبا آگے چل کر دین کی قیادت سنبھالتے اور فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں ۔جبکہ یہ علمائے حق کا مسلک نہیں ہے افسوس کہ شریعت کے جو پیمان ہم نے توڑے وہ لے جا کے سب اہل مغرب نے جوڑے ۔۔۔۔۔
آج یہ فرقہ بند اور شر پسند مولوی اسلام دشمن قوتوں کو یہ کہنے کا موقع دے رہے ہیں کہ اسلامی قوانین کا نفاز مسلمانوں میں انتشار پیدا کر دے گا لہذا اس سے توبہ ہی بھلی ۔۔۔۔تو خود سوچیئے اس میں اسلام کی کیا بھلائی ہے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ احیائے اسلام کی خاطر دین اسلام کا روشن اور سافٹ امیج دنیا کے آگے رکھا جاتا ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اس کی روشن مثال تھی ۔لیکن یہ سب دین پھیلانے کے لیئے نہین تھا یہ ساری کاوشیں تو مال بنانے کے لیئے تھیں امریکہ نے مجاہدین بنائے استعمال کیئے اور مقصد حاصل کرنے کے بعد چھوڑ کے واپس لوٹ گیا لیکن جن ڈالروں کی جھلک وہ افغانون کو دکھا گیا تھا وہ انہیں آپس میں ہی برسر پیکار کرنے کے لیئے کافی تھی ۔افغانوںکی فطرت ہے کہ یہ بندوق کی نوک پر کوئی بات نہیں مانتے ہاں پیسے کی جھلک دیکھ کر نرم پڑ جاتے ہیں ان کو زیر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ یہ لوگ پیسے کے متوالے ہیں ۔انہیں پیسہ دیجئے اور خریدلیجئے
آج یہی بات ”را ” کا ایجنٹ اجیت اگروال کہہ رہا ہے کہ ہم نے ان کو پاکستان سے ڈبل ریٹ دے دیا۔ہم اس کا اعتراف کیوں نہیں کر لیتے کہ افغانوں کے لیئے پاکستانی عوام تو انصار مدینہ بن گئے لیکن افغان اپنی فطرت نہ بدل سکے پاکستان کی تباہی تب ہی شروع ہو گئی تھی جب طالبان بینظیر حکومت کے بچے اور ہمارے بھائی بن گئے تھے ۔عمران خان صحیح کہتے ہیںکہ پاکستان کی تباہی میں کچھ جنرل، سیاستدان، علماء اور حکومتیں خود شامل ہیں۔ افغانوں کو ترجیحی بنیادوں پر شناختی کارڈ فراہم کیئے گئے ۔ان کو بے دریغ جائدادیں فروخت کی گئیں ج وہ ہم سے زیادہ جائیدادوں کے مالک ہیں بلکہ زیادہ تر کاروبار بھی انہی کے قبضے میں ہیں ۔میں نے انکو نادرہ کے دفتر میں دیکھا کہ دفتر کے لوگ مقامی لوگوں سے زیادہ انکو ترجیح دے رہے تھے وہ پورے پورے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت دفتر میں رکھے صوفوں پر براجمان تھے باقی انتظار میں کھڑے لوگوں کو نظر انداز کر کے ان کا ہی کام ہو رہا تھا کیونکہ پیسے کو پہیے لگے ہوتے ہیں۔
اب یہ سارا گند فوج کو ہی صاف کرنا ہے ۔اور فوج صرف ایک جنرل کا نام نہیں ہوتا ۔بحیثیت ادارہ فوج کو اپنی زمہ داریاں پوری کرنے دی جائیں تو کراچی بھی مافیاز کی گرفت سے آزاد ہو سکتا ہے ۔عوام کو صرف اپنے ذہن آزاد کرنے ہیں اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ یہ مذھب کی نہیں پیسے کی اور قبضے کی جنگ ہے جو صرف آئی ایس آئی کی مدد سے ہی جیتی جا سکتی ہے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں جنرل (ر) بابرنے طالبان کی حوصلہ افزائی کی ۔وہ افغان پالیسی کو آئی ایس آئی کی گرفت سے آزاد کرانا چاہتے تھے ۔بے نظیر بھٹو اور نصیر اللہ بابر دونوں آٰئی ایس آئی کی طاقت اور وسائل کے بارے میں خاصے پریشان تھے کیونکہ آئی ایس آئی کو طالبان کی صلاحیتوں کے بارے میں شک تھا ۔طالبان کے پاس اتنے وسائل بھی نہ تھے کہ وہ افغان طلبا کی تحریک کی مدد کر سکتے۔بابر نے طالبان کی امداد کو سول دھانچے میں ڈال دیا
انہوں نے وزارت داخلہ میں افغان ٹریڈ ڈیولپمنٹ سیل قائم کیا جس کا مقصد وسطی ایشیا تک تجارتی راستے کھولنے کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو مربوط کرنا تھا ۔اس کے علاوہ خفیہ فنڈ سے بلکہ وزارتوں کے مالی وسائل سے طالبان کو نقل و حمل کی سہولتیں فراہم کرنا تھا ۔جنرل بابر نے پاکستان کے محکمہ ٹیلی فون کو حکم دیا کہ وہ طالبان کے لیئے ٹیلی فون کا نظام قائم کرے اس طرح وہ پاکستان کے ٹیلی فون نظام کا حصہ بن گیا ۔پاکستان کے کسی بھی مقام سے 081 کے کوڈ کے ساتھ کوئٹہ کی طرح قندھار میں بھی ٹیلی فون کیا جا سکتا تھا۔پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ اور وپڈا نے سڑکوں کی تعمیر اور قندھار کو بجلی فراہم کر کے دی ۔فرنٹیر کور نے جو براہ راست جنرل بابر کے ماتحت تھی ،طالبان کے کمانڈروں کے لیئے وائرلیس نیٹ ورک قائم کر کے دیا۔
پی آئی اے اور شہری ہوا بازی کے محکمے نے قندھار ائیر پورٹ ،فائٹر جیٹ اور ہیلی کاپٹروں کی مرمت کے لیئے اپنے کاریگر اور ماہر بھیجے ۔ریڈیو پاکستان نے ریڈیوافغانستان کے لیئے ،جس کانام ریڈیو شریعت رکھا،اسے فنی امداد فراہم کی ،پاکستان ٹیلی کام ،پی آئی اے،پاکستان ریلوے،شہری ہوابازی کے محکمے،ریڈیو پاکستان ،اور نیشنل بنک آف پاکستان کے افسر،وزارتوں اور سرکاری کار پوریشنوں نے طالبان کی مدد کے لیئے منصوبوں پر عملدرامد کے لیئے وہ سرمایہ صرف کرنا شروع کیا جو پاکستان کی ترقی کے لیئے مختص کیا گیا تھا ۔یہ سب کچھ بے نظیر بھٹو نے عورت کی حکمرانی کو جائز کروانے کے لیئے کیا یاآصف علی زرداری کی میز کے پیچھے لٹکنے والا گیس پائپ لائن کے منصوبے کا نقشہ بنا بحرحال پاکستان نے اس کھیل میں کچھ نہ پایا اور سب کچھ کھو دیا۔ بعد میں جو بھی حکومت بنی وہ اس دلدل سے باہر آنے کی بجائے مزید اس میں دھنستی چلی گئی
کسی نے نہ عوام کو کچھ بتایا نہ پاکستانیوں کے مستقبل کا سوچا ۔صرف مشرف نے اس سارے کھیل کو سمجھا اور پاکستان کی فکر بھی کی اپنی فراست سے کچھ خوشحالی بھی لایا ۔جو اس کھیل کے کچھ کرداروں کو پسند نہ آیا جو اپنی انٹریاں ڈال کر کروڑوں پتی بن چکے تھے ۔جہاد پہلے اپنے نفس کے خلاف کیا جاتا ہے لیکن ہمارے مذہبی لیڈروں نے اسے کمائی کا ذریعہ بنا لیا یہی وجہ ہے انکے زلیل و خوار ہونے کی کیونکہ جب قومیں اپنے اتفاق واتحاد سے محروم ہو جاتی ہیں تو پھر خدا ان سے وہی سلوک کرتا ہے جو ریوڑ سے بچھڑنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے !
تحریر:مسز جمشید خاکوانی