counter easy hit

مسائل کا بڑھتا گراف اور عالمی دن منانے کا رواج !

Papolution

Papolution

تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
دنیا میں بے شمار کام ایسے ہیں جویا تو کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے یا پھر نقصان کی غرض سے انجام دیے جاتے ہیں۔ لیکن کون سا کام فائدہ کے لیے اور کون سا نقصان پہنچانے کے لیے انجام دیا جارہا ہے، بعض اوقات اس کی وضاحت کرنا ذرا مشکل ہوجاتی ہے ۔اس کے باوجود مسلسل اور سلسلہ وار سرگرمیوں کے جائزے میںمثبت و منفی نتائج کو اخذ کیا جاناکوئی مشکل کام نہیں ہے۔لیکن فکر و نظر کا اختلاف ایک ایسا اختلاف ہے جس میں مخصوص کام کی انجام دہی اور اس کے طے شدہ نتائج،ایک شخص و گروہ کے لیے منفی تووہیںدوسروں کے لیے مثبت بھی ہوسکتے ہیں۔لیکن یہاں بھی اگر باریکی سے جائزہ لیا جائے توباخوبی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ کون سا کام مہلک ہے تو کون سا سود مند۔کچھ ایسا ہی معاملہ اُن عالمی دنوں ،ہفتوں اور مہینوں کابھی ہے جنہیں سماجی و مذہبی رسم و رواج ، مختلف افکار ونظریات اورکلچر کے فروغ کے پیش نظر اقوام متحدہ یا دیگر نظریات سے وابستہ تنظیموں وگروہوں کی جانب سے منایاجاتا ہے۔ دراصل یہ عالمی دن منانے کا رواج اس بازار کی مانندہے جہاںایک عالمی سطح کے بازار میں بڑے پیمانہ پر اشیاء کی خرید و فروخت اور منافع کے اصولوں کارفرما ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملین ٹریلین دولت، اِن عالمی دنوں ،ہفتوں اور مہینوں کو منانے میں خرچ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود نہ مسائل میں کمی آتی ہے اور نہ ہی یہ مخصوص دن سماجی، معاشی،معاشرتی، تمدنی، اخلاقی و انسانی بنیادوں پر کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔کسی بھی ملک کا ایک عام شہری مسائل کے انبار میں ہردن مزید الجھتا جا رہا ہے ۔ اس کے باوجود نہ دن منانے سے قبل اور نہ ہی بعد میں اس کو کوئی آسرا نظر آتا ہے۔

یہ بات ایک طویل عرصہ سے کہی اور سنی جا رہی ہے کہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے جانے چاہیے، اُن کے اور مردوں کے درمیان کسی بھی سطح پر امتیاز برتنا نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔ اس پس منظر میں خواتین کی آزادی کی جدوجہد کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد صنفی امتیاز کے خاتمے کے تصور کو تقویت ملی۔ امریکا اور یورپ کے سوشلسٹوں نے سب سے پہلے خواتین کی آزادی کی جدوجہد کو منظم کیا۔1908ء میں جرمن خواتین کی انجمن کی طویل ہڑتال کی یاد میں سوشلسٹ انٹرنیشنل نے ڈنمارک میں ہونے والی تیسری کانفرنس میں یہ دن منانے کا فیصلہ کیا۔سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے 28 فروری 1909ء کو خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔ 19 مارچ 1911ء میں آسٹریلیا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں لاکھوں افراد نے جلوس نکال کر خواتین کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ 1913ء میں روس میں خواتین نے فروری کے آخری ہفتے کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔1914ء میں جرمنی میں اس دن کو خواتین کے ووٹ کے حق سے منسوب کیا گیا۔ روس کے شہر سینٹ پیٹرس برگ میں 8 مارچ 1917ء کو خواتین نے پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے لیے مظاہرہ کیا۔ یہ خواتین ہتھیاروں کے بجائے روٹی کامطالبہ کر رہی تھیں۔

جب 1917ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب آیا اور سوویت یونین قائم ہوئی تو سوویت یونین کے بانی ولاڈیمر لینن نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا، سوویت یونین کے آئین میں تحریر کیا گیا کہ خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ سوویت آئین دنیا کا پہلا آئین تھا جس میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق کی ضمانت دی گئی جس کی یورپ اور امریکا نے بھی پیروی کی۔خواتین کے حقوق اور ان کی بازیابی کے تصور کے پیش نظر کل یعنی 8مارچ2015ء ہندوستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں خواتین کا عالمی دن بڑے دھوم دھام سے منایا ہے۔اور اُن فیصلوں پر عمل درآمد کی بات کہی ہے جس سے خواتین کو ان کے حقوق حاصل ہوسکیں۔اس کے باوجود گزشتہ طویل جدوجہدبتاتی ہے کہ زمانے کے متغیر حالات میں آج بھی ہر سطح پر خواتین حد درجہ ظلم کا شکار ہیں۔ساتھ ہی تشدد کے دیگر واقعات نے امن و بھائی چارے کا خاتمہ کیا ہے نیززندگی مزید دشوار کردی ہے۔

تشدد کا تازہ واقعہ گزشتہ دنوںہندوستانی کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ میں رونما ہوا ہے۔جہاںنہ صرف کھلے عام قانون کی دھجیاں اڑائی گئی بلکہ خود ہی منصف بن کر ملزم کے خلاف فیصلہ بھی صادر کر دیا ۔واقعہ نے ملک بیرون ملک رہنے والے ہندوستانیوں کو جہاں ایک جانب حد درجہ شرمندہ کیا ہے وہیں ریاست اور اس کی انتظامیہ پر بھی سوال کھڑے کیے ہیں۔واقعہ اُس مشتعل ہجوم کا ہے جس نے دیماپور کی سینٹرل جیل میں گھس کر زناباالجبر کے ایک ملزم کو نہ صرف باہر نکالا بلکہ تشدد کا وہ طریقہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں ملزم ہلاک ہوگیا۔اور یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جبکہ شہر میں کرفیو نافذ تھا۔اطلاعات کے مطابق پولیس کی فائرنگ میں زخمی ہونے والا ایک شخص بھی چل بسا ہے جبکہ چار افراد زیر علاج ہیں۔واقعے کی ایک مختصر ویڈیو فلم ٹی وی چینلوں پر دکھائی جا رہی ہے۔جس میں ہزاروں مظاہرین اُس شخص کو برہنہ حالت میں اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ،جسے ایک ناگا لڑکی کے ریپ کے الزام میں چند روز قبل گرفتار کیا تھا۔اورگرفتاری کے بعد عدالت نے اسے جیل بھیج دیا تھا۔مظاہرین کی رہنمائی ناگا طلبہ کی ایک تنظیم کر رہی تھی اور علاقے سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق ان کا ارادہ اس شخص کو سر عام پھانسی دینے کا تھا لیکن شدید پٹائی کی وجہ سے ملزم نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق ہلاک کیاجانے والا شخص بنگلہ زبان بولنے والا تھا۔ واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی برقرارہے۔وہیں دوسری طرف وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے واقعہ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے سکیورٹی کے مناسب انتظامات کیے جارہے ہیں اور نیم فوجی دستوں کو تیار رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ریاست کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کے مطابق پولیس نے طاقت کا زیادہ استعمال کرنے سے گریز کیا کیونکہ اس سے اور زیادہ جانی نقصان ہوسکتا تھا۔ ان کے مطابق تفتیش جاری ہے اور ویڈیو کی مدد سے جتنے بھی لوگوں کی شناخت ہوگی انہیں گرفتار کیا جائے گا۔

سوال پھر اٹھتا ہے کہ ہر سال خواتین کے عالمی دن منانے سے کیا حاصل ہو رہا ہے؟اُس صورت میں جبکہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں زنا باالجبر کے واقعات میں اضافہ سامنے آرہا ہے۔حکومت سخت سے سخت قوانین بنا رہی ہے وہیں دوسری جانب وہ چور دروازے بھی کھولے جا رہے ہیں جن کا مقصد غالباًزنااور ان جیسے دیگر اخلاق سوز حرکات کوکم کرکے دکھاناہے۔ہندوستانی قانون کی دفعہ-375زنا بالجبر کی تفصیلات پیش کرتی ہے۔جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کسی شخص کو “زبا بالجبر”کا مرتکب اس وقت کہا جائے گا جبکہ وہ کسی عورت سے درج شدہ چھ حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں مباشرت کرے۔i)اس کی مرضی کے خلاف۔ii) اس کی رضا مندی کے بغیر۔iii)اس کی رضامندی سے جبکہ ایسی رضامندی قتل یا ضرر کا خوف دلا کر حاصل کی گئی ہو۔iv)اس کی رضا مندی سے جبکہ مرد جانتا ہو کہ وہ جائز طور پر اس سے شادی شدہ نہیں اور یہ کہ رضا مندی اس بناء پر دی گئی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ مرد وہ دوسرا شخص ہے جس کے ساتھ اس کی شادی جائز طور پر ہوئی ہے یا جائز طور پر شادی شدہ ہونا باورکرتی ہے۔v) اس کی رضا مندی سے جبکہ ایسی رضا مندی دیتے

وقت وہ فتور عقل یا نشہ یا اس شخص کے ذریعہ ذاتی طور پر یا کسی اور شخص کے ذریعہ کوئی بے شعور ی یا طبیعت کو بگاڑنے والی شئے کی وجہ سے ، وہ اس امر کی نوعیت اور نتائج سمجھنے سے قاصر ہے جس کے لیے وہ رضا مندی دیتی ہے۔اور آخری یعنی چھٹی شکلvi) اس کی رضا مندی سے یا اس کے بغیر جبکہ وہ سولہ سال سے کم عمر کی ہو۔دستور ہند کی روشنی میںیہ وہ حالات ہیں جبکہ زنا کو زنا بالجبر کہا جائے گا اور ان ہی بنیادوں پر جرم ثابت ہوگا و سزا دی جائے گی برخلاف اس کے دیگروہ حالتیں جن میں دونوں کی رضامندی ہو اور ان پر قانون کی گرفت بھی نہ آتی ہو، ایسی حالت میں “زنا “قانون کی نظر میں برائی نہیں اور نہ ہی اس پر سزا دی جائے گی۔توجہ فرمائیں کیا قانون کی یہ شقیں ایک مذہب معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں؟ یا حالات کے پیش نظر مزید تبدیلیاں درکار ہیں؟لیکن سوال یہ ہے کہ فیصلہ کون کرے گا؟ خواتین کا عالمی دن منانے والے افراد، گروہ، این جی اوز اور برسراقتدار طاقتیں؟ یا انسان کو بنانے والا معبود برحق جس نے نہ صرف انسان کو بنایا بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے ایک بہتر زندگی وہ کیسے گزارے ؟اس کی بھی واضح تعلیمات ونذیریں مکمل طور پر فراہم کر دی ہیں!

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com