تحریر: حافظ محمد فیصل خالد
قیامِ پاکستان سے آج تک پاکستان کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی مسائل میں دن بدن بتدریج بڑہتے جا رہے ہیں۔ بد قسمتی سے ان مسائل میں اضافے کی بنیادی وجہ حکمران طبقے کا قومی مفاداد پر ذاتی مفاداد کو ترجیح دینا ہے۔ ملک کی حالیہ صورتِ حال بھی حکمرانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے جس کے بدلے عام آدمی دن بدن تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جبکہ حکمران طبقہ تیزی سے بہتر سے بہتر ہوتا جا رہاہے۔
بر سرِ اقتدار آنے والی ہر جماعت نے ہمیشہ عوامی مسائل کے حل کا دعوے تو کئے مگر ہر مرتبہ عوام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔مثلاََ ابتداء سے مسلم لیگ نے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے عزم کا اعادہ کیا مگر تا حال ناکام ہے۔ بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کا سہارا لیکر میدان میں اتری مگر بد قسمتی سے تا حال ناکام، یہاں تک کہ روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی تو دور کی بات بلکہ اس کام کیلئے کوئی واضع حکمتِ عملی تک وضع نہیں کر سکے۔
اس کے بعد صدر مشرف کے دور پر نظر ڈالی جائے تو اس میں بھی عوام کا پیٹ کھوکھلے نعروں سے ہی بھرا گیا اور اسی دور میں عوامی سہولت کے نام پر امریکی وفاداری میں چند لاکھ ڈالرز کے عوض ساری قوم پر اغیار کی ایک ایسی جنگ مسلط کر دی گئی کہ آج تک ساری قوم خمیازہ بھگت رہی ہے۔
اور اب ٣١٠٢ میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی عوام کے ساتھ وہی کیا گیا جو مروجہ دستور ہے۔انتخا بات میں کامیابی کے بعد بر سرِ اقتدار اآنے والی جماعتیں عوامی مسائل پر تو تا حال توجہ نہ دے سکیں مگر باہمی اختلافات اور نفرت کی سیاست کو فروغ دینے میں کافی حد تک اپنے اہداف حاصل کر چکی ہیں۔ مثلاََ پاکستان تحریکِ انصاف انتخابی اصلاحات اور انتخابی عمل کو بہتر کرنے کیلئے بزد ہے جبکہ دوسری جانب حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی ڈگ مگاتی حکومت کو بچانے کیلئے مفاہمتی سیاست پر زور دے رہی ہے۔ جبکہ اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی زیادہ توجہ اپوزیشن پر نہیں بلکہ اس بات پر مز کوز ہے کہ سابقہ دور میں ہونے والی بد عنوانیوں سے لیڈر شپ کو safe Exit کیسے دیا جائے۔ عوام کیا ہیں، کیسے ہیں ، ان باتوں سے ان لوگوں کو کوئی غرض نہیں۔
اب اس ساری سورتِ حال میں بنیادی طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتخابی اصلاحات سے عام آدمی با آسانی دو وقت کی روٹی کما سکے گا ؟ کیا حکومتی مفاہمتی پالیسی عام آدمی کو بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کر سکیں گی ؟کیا ایوانِ اقتدار کے پر آسائش محلات میں بیٹھ کر عوامی مسائل کے حل کے بڑے بڑے دعوے بھوک و افلاس سے مرتے غریب آدمی کا پیٹ بھر دیں گے؟ کیا عوامی مسائل پر اپوزیشن کی مجرمانہ خاموشی عوامی مسائل کے حل میںمعاون و مددگار ثابت ہو سکے گی؟
یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں جو ہر ذی شعور کے قلب و جگر میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں مگر افسوس کہ ان سیاست دانوں کو ان عوامی مسائل سے کوئی گرض نہیں۔ ان کو غرض ہے تو امتخابی اصلاحات سے تاکہ آئندہ ہونے والے انتخابات انکی منشاء کے مطابق نتائج مل سکیں ۔ انکو غرض ہے تو اقتدار کو بچانے والی مفاہتی سیاست سے ہے تاکہ انکی حکومت اپنے پانچ سال پورے کر سکے ۔ انکو غرض ہے کہ گزشتہ ادوار میں ہونے والی بدعنوانیوںکو نظر انداز کرنے سے۔ عوام کون ہے، کیوں ہے، کیسے ہے، ان سب باتوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
اور دلچسپ بات یہ کہ انکی انحرکات کے باوجود عوام ان سے امیدیں لگاے بیٹھے رہیں تو یہ بات کم از کم کسی ذی شعور آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہے۔کیونکہ اس ساری صورتِ حال میں مزکورہ بالا حقائق کے پیشِ نظرابھی بھی ہم ان لوگوں سے کسی قسم کی بھلائی کی امید رکھیں تو پھر شاید ہم ابھی بھی احمقوں جنت میں غفلت کی نیندسو رہے ہیں اور جب ہم اس خوابِ غفلت سے بیدار ہوں گے تب تک شاید وقت اتنا آگے گزر چکا ہو گا کہ ازالہ ممکن نہ ہو گا۔
تحریر: حافظ محمد فیصل خالد