تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
سارے جہانوں کے تاجدار ، سارے معلموں کے معلم اعظم ، محسن انسانیت ، علم و حکمت کے بادشاہ ، سردار الانبیاء ، نبی آخر الزماں جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد رسول خدا ۖ کے فرمان عالی جاں،کے مطابق علم حاصل کرو ماں کی گود سے لیکر قبر تک، مسلمان عورت او مرد پر علم حاصل کرنا فرض ہے، افسوس آج ہم علم حاصل کرنے کی بجائے اسناد حاصل کرنے کے پیچھے لگ گئے ہیں، علم کی اہمیت سے کوئی بھی بشر انکار نہیں کرسکتا، رہا مسئلہ اسناد سرٹیفیکٹس ، ڈپلومہ اور ڈگریز کا تو یہ وقت کی ضرورت ہے، ان کی اہمیت کو سلام،کوئی بھی ملک، ریاست اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اپنے ملک کے باسیوں کو معیار تعلیم اور معیار صحت جیسی بنیادی ضروریات زندگی بلا تفریق مہیا نہیں کی کرتی۔کسی بھی ریاست، ملک کی حکومت خواہ وہ فوجی ہو یا عوامی ایک نقطہ پر کاربند ہوتی ہے کی اپنے ہم وطنوں کو صحت اور تعلیم جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ، ہر قیمت پر ہراپنے شہریوں خواص و عام کو انکی دلیز پر مہیا کی جائے، جس ملک نے بھی ترقی کی اور جو قوم بھی ترقی یافتہ کی صفوں میں شامل ہوئی اس کے پیچھے یہی حقیقت کارفرما ہوتیں کہ بہتر اور معیاری نظام تعلیم اور نظام صحت کی فراوانی یقینی طور پر موجود ہیں۔
ویسے بھی اگر ماضی کی ایک جھلک تاریخ کے آئینہ سے دیکھی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح پوری آب و تاب کے ساتھ چمک دھمک رہی ہے۔جس قوم نے بھی نظام تعلیم پر خصوصی توجہ دی کامیابی نے اسی قوم کے قدم چومے، جب تک ہمارے آباؤجداد تعلم سے محبت ، ولولہ شوق اور جزبہ کے ساتھ وابسطہ رہے تب تک دنیا کی امامت کا سہرا ہمارے سروں پرہی رہا، ہماری بدبختی کا وہ دن پہلا تھا جب ہم نے تعلیم اور تربیت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، آج ہمارے پاس تعلیم یافتہ افراد کی ایک معقول تعداد تو موجود ہے مگر ہم نے ان قوم کے معماروں کو تعلیمی زیور سے تو خوب آراستہ کر لیا ہیں، یہ تعلیم ہی ہے جسکی بدولت آج کا طالب علم فضاؤں میں اُڑ رہا ہے، یہ تعلیم ہی کا اثر ہے جو سمندروں اور زمین کی تہوں کو چیرتا ہوا مچھلیوں اور کیڑوں مکوڑوں کی طرح تہہ در تہہ سمندروں اور زمینوں کے چھپے خزانے نکال کر لا رہا ہے۔ چاند پرانسانی قدم رکھنا یہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں
یہ بھی تعلیم ہی کا اثر ہے جو آج کا پڑھا لکھا نوجوان کتوں اور گدھوں سمیت حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر گوشت بنا رہا ہے، اسی حرام گوشت کو پورے نیٹ ورک کے ساتھ بڑے بڑے شہروں میں سپلائی کر رہا اور سپلائی کروا رہا ہے، جو یہ جوا اور شراب کی دلدل میں پھنس کر اپنے آپ کو موت سے پہلے موت کے حوالے کر رہے ہیں یہ کوئی ان پڑھ یا جاہل طبقہ نہیں بلکہ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورت کے مطابق پاکستان میں عورتوں کے غیر ضروری اپریشن ہو رہے ہیں جس کو انسانی ہمدردی کے تحت روکا جائے، سوال یہ نہیں کہ دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتاتو پاکستان میں کیوں ہو رہا ہے کیا اس کا مطلب یہ اخز کیا جائے کہ پاکستان میں صرف لالچ کے عوض لیڈی ڈاکٹر صاحبان ایسا کر رہی ہیں ، یا مجبوری کے طور پر ایسا ہو رہا ہیں، کیونکہ پرائیویٹ شفاخانوں دوسرے لفظوں میں زبح خوانوں کے کرائے اتنے زیادہ ہیں اگر ایسا نام نہاد مسیحا نہ کریں تو اخراجات کیسے پورے ہوں؟ہو سکتا آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ۔۔۔ کیوںکہ ہم نے قوم کے مسیحا کو تعلیم اور پروفیشن تو دیا ہے مگر تربیت اور انسانیت کا درس نہیں دیا
اہل دانشور خوب جانتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ، منشیات چرس ،افیون وغیرہ کا کاروبار کسی جاہل یا ان پڑھ کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ کام بھی ملک عزیز کے تعلیم یافتہ بے روزگار ہی بلواسطہ یا بلاواسطہ سر انجام دیتے ہیں، ہو سکتا ہے آپ سوچ رہے ہوں کہ میں خواہ مخواہ تعلیم کو نشانہ بنا رہا ہوں ایسی کوئی بات نہیں اللہ جانتا ہے مجھے کسی سے کوئی بغض بھی نہیں اور کسی سے کوئی لالچ بھی نہیں ، نظام تعلیم میں ہماری توجہ صرف اصول تعلیم کی ایک جانب ہی متوجہ رہی ہے جو حقیقت ہے،اسی سال محکمہ تعلیم پنجاب نے جغرافیہ کلاس آٹھویں کی کتاب میںپنجاب کا نقشہ ہی غلط پرنٹ کر دیا۔۔۔ جسکا وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا اور کتاب واپس منگوا کر اسی جگہ صحیح نقشہ والی کتاب طالب علموں کو دی گئی۔۔ بہت خوب۔۔کاش زمہدران سے کتابوں کی چھپوائی کے اخراجات وصول کئے جاتے تا کہ آئندہ حکومتی خزانے کو باپ کی جاگیر نہ سمجھا جاتا،
رشوت اور سفارش کا لین دین بھی کسی جاہل یا ان پڑھ کے بس کی بات نہیں ہوتی، یہ کام پورے زورو شور سے جاری و ساری ہے ، رشوت اور سفارش کا پنجے نے پوری گرفت سے پڑھے لکھے طبقے کو دبوچا ہوا ہے۔ اور تو اور ہمارے معاشرے میں دین سے وابسطہ لوگ بھی دینی اور مہذبی لوگ بھی اسی قسم کی روحانی بیماریوں سے دو چار ہیں، حقیقت کو جانچنے کے لئے صرف ایک مثال دوں گا،کسی بھی محلہ کی مسجد ہے اگر آپ نے کوئی بھی امام صاحب یا خطیب صاحب رکھا ہے ۔۔۔ اگر آپ جوا شراب یا دیگر حرام ذرائع سے حاصل روپے پیسے سے مہذب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی مالی مدد کرتے ہیں یا اللہ کے در کی امداد کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تو یہ شرافت کے علمبردار کیوں نہیں بتاتے جانتے بوجھتے بھی کہ حرام کی کمائی دوزخ کا عذاب ہیں۔۔۔۔۔ تعلیم تو ان کے پاس ہیں،،،،، مگر تربیت نہیں ۔۔اچھی تربیت کے لئے ایک نقطہ ۔۔۔۔ ایک حل ۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایس حل جسکو اپنانے سے دنیا تو دنیا آخرت میں بھی کامیابیاں ہی کامیابیاں۔
ہمارے تمام مسائل چغلی، بغض، حسد ، جادو، ٹونہ،چوری، ڈاکہ، اغوا، رشوت ، سفارش، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، غیر معیاری خوردونوش، بم دھماکے، زہنی، دماغی جنسی، ناچاقی، گھریلو پرشانی، اولاد کی نافرمانی، بے برکتی، بے حسی، لاپروائی۔مکرو فریب سمیت جسمانی اور روحانی امراض سے چھٹکارہ کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عملی اور علمی طور پر سیرت النبیۖ کو اپنانا ہوگاتعلیم کے ساتھ تربیت کا نہ ہونا ایسے ہی جیسے بغیر عمل کے علم ۔۔ تربیت کے لئے ضروری ہے کہسیرت النبی ۖ عمر اور کلاسوں کے حساب سے ہر قسم کے سلیبس میں شامل کی جائے۔۔۔ یہی ہمارے مسائل کا حل ہے
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا