جن بھوت کے قصّے کبھی بڑی بوڑھیوں سے سنے تھے اور آج آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پانچ بہن بھائیوں نے غربت سے تنگ آکر چوہے مار گولیاں کھالیں۔ کوئی ہمسائے انہیں اٹھاکر اسپتال لے آئے ۔ شکر ہے ڈاکٹروں نے انکے معدے صاف کردیئے اور اب وہ ہوش میں آرہے ہیں مگر ہوش میں آنے کے بعد، اب پھر انہیں روٹی کون کھلائے گا۔ وہ محلّے والے یہ کیوں نہیں کرتے کہ ایک ایک بچے کو اپنے گھر رکھ لیں، چاہے نوکر کی طرح کام لیں۔ انہیں کھانے کو روٹی ملے گی اور محنت کا معاوضہ بھی اگر دے سکیں تو دیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مشورہ دینا تو بہت آسان ہوتا ہے۔ ہر گھرانہ اپنے لئے ہی مشکل سے روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔ ایک اور جی کیلئے روٹی فراہم کرنا کیا ممکن ہوگا۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہی ہوں کہ آئے دن کسی حملہ آور یا دہشت گرد کو محلّے کے لوگ خود پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان بچوں کو ایدھی گھر چھوڑ دیا جائے۔ کچھ کام سیکھیں اور روزی کمانے کے قابل ہوجائیں۔ علاوہ ازیں زمرد خان کے اپنا گھر ادارے سے ان بچوں کو منسلک کردیا جائے، وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی اعلان کیا ہے کہ ایسے بچوں کو کام سیکھنے کے دوران، وظیفے بھی دیئے جائینگے۔ اگر یہ صرف اعلان نہیں، تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ آخر بیت المال ہے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔ اتنے سارے ادارے غریبوں کی واقعی مدد کریں تو ہمیں سڑکوں پر بھیک مانگتے اور گھروں میں زہر کھاتے المیے نہیں دکھائی دیں۔ایک اور موضوع ہے، بوڑھوں کی امداد کا طریقہ اور منصوبہ بندی، یہ تو سچ ہے کہ بہت سے کھاتے پیتے لوگ، بوڑھے ماں باپ کو یا تو کسی درخت کے نیچے چھوڑ کر فرار ہوجاتے ہیں یا باقاعدہ ایدھی فائونڈیشن میں داخل کرکے وعدہ کرتے ہیں کہ دو مہینے بعد لےجائینگے، وہ دو مہینے کبھی ختم نہیں ہوتے ہیں۔ بقیہ زندگی وہیںگزار دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ اہم موضوع اور ہزاروں بزرگ سڑک کے کنارے بیٹھے بھیگ مانگتے زندگی گزارتے ہیں۔ اگر کسی کو کینسر یا ٹی بی ہو تو خاندان کی بہو، شوہر کو کہہ کر انھیں گھر سے نکال دیتی ہے یا پھر اپنے گھر کے سرونٹ کوارٹر میں ڈال کر انکی دیکھ بھال بھی نہیں کرتے۔ ایسے واقعات میری آنکھوں نے بہت جگہ دیکھے ہیں۔ خاندانوں کی بے حسی اپنی جگہ، مگر سرکار کو اپنی ذمہ داری بھی نبھانی چاہئے۔ سماجی بہبود کے ادارے اسی لئے بنائےجاتے ہیں۔ یورپ ہو کہ امریکہ، وہ بوڑھے لوگ جو اکیلے رہ گئے ہوں۔ انکی بہبود اور اور دیکھ بھال کے لئے، ہر یونٹ میں سروے کے بعد، انکو گھروں میں غسل دینے سے لیکر کھانا فراہم کرنے اور دوائیاں فراہم کرنے کے علاوہ ہفتے میں ایک دن پوری کمیونٹی کے معذور، غریب اور بوڑھے لوگوں کو سیر کرانے کے لئے لیجایا جاتا ہے۔ ضرورت ہوتو ڈاکٹر کو گھرپر ہی بلاکر دکھادیا جاتا ہے۔ ان بزرگوں کو کمیونٹی ممبران کے ایمرجنسی ٹیلی فون نمبر دینے کےعلاوہ انکے گلے میں ایک ایمرجنسی نمبر لٹکادیا جاتا ہے۔ جیسے ہی مریض یہ نمبر دباتا ہے فوراً ایمرجنسی کی گاڑی معہ ڈاکٹر کے گھر پہنچ جاتی ہے اور ضروری طبی امداد فراہم کرتے ہیں۔ کیا ہمارے عمران خان اور شہباز شریف لوکل باڈیز کے ذریعہ سروے کرواکر، ان لوگوں کی مدد نہیں کرسکتے ۔اب ایک اور اہم مسئلہ، یوں تو پاگلوں کے لئے چند پاگل خانے ہیں مگر وہاں شرط یہ ہے کہ اسپتال میں اگر کوئی رشتہ دار، اس پاگل کے ساتھ رہےتو وہ اسے اسپتال میں رکھیں گے۔
یہ ملک جہاں ہر شخص کو روٹی کماکر کھانی پڑتی ہے۔ پاگل کے ساتھ کوئی شخص کیسے اور کتنے دن رہ سکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ پاگل کسی دوسرے شخص پر حملہ کرسکتا ہےمگر ایسے پاگل کو الگ کوٹھڑی میں رکھا جائے۔ وہ یہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ اسلام آباد جیسے شہر میں کوئی پاگل خانہ نہیں ہے۔ راولپنڈی میں بھی بہت کم سہولت ہے۔ ویسے تو اسلام آباد کےدفتروں میں بھی کام کرنے والے اور یہ دیکھ کر کہ ان کے افسروں کو ہتھکڑیاں لگاکر دفتروں سے اٹھاکر لے جایا جاتا ہے،دیگر ملازمین بھی ذہنی طور پر مائوف ہوجاتے ہیں۔ فائلوں پہ فائلیں ڈھیر ہوتی جاتی ہیں، ڈرتے ہیں کہ کیا خبر کس کیس میں وہ بھی رکھ لئے جائیں۔ لوگ دفتروں کے چکر لگاتے ہیں، فائل نہیں نکلتی، عدالتوں میں بھی یہی حال ہے۔ روز ہتھکڑی لگے کچہری لائے جاتے ہیں۔ پیشی نہیں ہوتی، سوکھے ،بھوکے واپس بھیج دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح لوگ مجرم یا پاگل نہ ہوں تو اور کیا ہوں۔
شہباز شریف صاحب! اورنج ٹرین کے علاوہ ان سب مسائل پربھی توجہ دیں۔ اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو شعیب بن عزیز کے سپرد ایسے کام کردیں۔ وہ یقیناً ایسے مسائل کا حل ڈھونڈ لے گا۔