تحریر۔ طارق حسین بٹ
انسان اگر جھوٹ کو دانشمندی ،بد دیانتی کو فراست ،اور کرپشن کو عقلمندی کا معیار بنا لے گا تو پھر معاشرے کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ کہ یہاں پرقا نون کی حکمرانی کی بجائے چند خاندانوں کی حکمرانی ہے جس سے ہر شہری سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ ملک جسے پرچی کی قوت سے حاصل کیا گیا تھا لا قانیت کی زد میں کیسے چلا گیا؟اسے تو ایک مثالی مملکت بننا تھا کیونکہ اس نے ایک خاص نعرے کے تحت اپنی تخلیق کا آغاز کیا تھا اور اپنے سے بڑی مسلم آبادی کو بھارت میں چھوڑا تھا ۔ تخلیقِ پاکستان پر سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بڑی مسلم اکثریت کو بھارت میں ہندوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور خود ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کر لی جائے
ایسا کرنا مسلمانا نِ ہند کے ساتھ بے وفائی ہے اور انھیں اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہے ۔ مولانا ابوا لکلام آزاد ،مولاناحسین احمد مدنی،علامہ عنائت اللہ مشرقی اور سید عطا اللہ شاہ بخاری تخلیقِ پاکستان کے ا س لئے مخالف تھے کہ اس سے بھارت میں رہ جانے والے مسلمان کے تحفظ کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی تھی۔قیامِ پاکستان کے داعیوں کا سب سے بڑا دعوی یہ تھا کہ ایک اسلامی نظام کا قیام ہندوئوں کے زیرِ حکومت کسی بھی صورت میں ممکن نہیں لہذا ایک علیحدہ اسلامی ریاست نا گزیر ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اسلامی نظام کا نفاذ ہی وہ جذبہ محرکہ تھا جو نئی سلامی ریاست کے قیام کا باعث بنا تھا اور جس کے لئے لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔آخری لمحے میں مشرقی پنجاب کے کچھ حصوں کو بھارت کے حوالے کرنے سے جو کشت و خون ہوا اس نے آزادی کی ساری خوشیوں کو بھسم کر کے رکھ دیا تھا۔لوگ آزادی کی خوشیاں منانے کی بجائے اپنے پیاروںکے لاشے اٹھا ر ہے تھے۔
ان طرح کے خونی بلووں نے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کو نڈھال کر کے رکھ دیا تھا لہذا ان کی ساری توانائیاں عوام کی بحالی اور ان کی آباد کاری پر صرف ہو رہی تھیں۔ قائدِ اعظم کے سامنے ایک ہی ہدف تھا کہ جس مقصد کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اس کی جانب قوم کی راہنمائی کریں لیکن مخصوص اشرافیہ،وڈیرہ ازم اور نوکر شاہی مائنڈ سیٹ نے محلاتی سازشوں کے تحت ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ان کی وفات کے بعد اس بحث کو چھڑ دیا گیا کہ کیا پاکستان کا قیام اسلامی ریاست کا قیام تھا یا ایک سیکو لر حکومت قائدِ اعظم محمد علی جناح کا مطمعِ نظر تھا؟کتنی عجیب بات ہے کہ ہم جس شخص کو مصورِ پاکستان کہتے ہیں اور جس کے الہ آباد کے خطبے اور سوچ کو قیامِ پا کستان کی بنیاد قرار دیتے ہیں
اس میں تو دو قومی نظریے کی روح پوری توانا ئیوں کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے اور پھر قائدِ اعظم کی تقاریر کا ایک ایک لفظ اسلامی ریاست کے قیام کی گواہی دیتا ہے لیکن ہم پھر بھی کچھ ترقی پسند حلقے بضد ہیں کہ پاکستان کا قیام اسلامی قوانین کی عملداری کی خاطر نہیں بلکہ ایک سیکو لر ریاست کے قیام کی خاطر تھا۔ اگر اس تصور کو سچ مان لیا جائے تو پھر پاکستان کے قیام کی کوئی وجہِ جواز باقی نہیں رہتی ۔بھارت میں باہم مل جل کر رہنے میں یہی چیز تو مانع تھی کہ ہم بحثیتِ مسلمان اپنے دین پپر عمل پیرا نہیں ہو سکتے تھے لہذا علیحدہ اسلامی ریا ست کا نعرہ بلند کیا گیا تھا ۔،۔
ایک زمانہ تھا کہ دنیا جمہوریت اور سوشلزم کی دو انتہائوں میں تقسیم تھی۔اس زمانے میں ترقی پسندی کی ایک شاندار تحریک بھی چلی تھی جس میں برِ صغیر کے نامور شعرا اور ادباء نے حصہ لیا تھا ۔ان کے ترقی پسندنہ افکار کی وجہ سے یہ تحریک ایک فیشن کی صورت اختیار کرگئی تھی لیکن بد قسمتی سے ان ترقی پسندوں کا قبلہ ماسکو ہوا کرتا تھا۔ترقی پسندی کی یہ تحریک شخصی آزادیوں اورمساوات کی داعی تھی اور امریکہ کو سامراج کے نام سے موسوم کرتی تھی کیونکہ امریکہ بہادر کے اقدامات سے سرمایہ داری کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔بہت سے ترقی پسند دانشور اپنے زورِ قلم سے عوام میں اپنا خاص مقام بنانے میں کامیاب و کا مران ہو گئے اور ان کے نام کا ڈنکا ہر سو بجنے لگا
لیکن انھیں اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب روس اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطرا فغانستان میں داخل ہوا اور اس پر بزورِ قوت قبضہ کر لیا۔یہ وہی زمانہ ہے جس میںجہادی تنظیموں کو ریاست کی سر پرستی حاصل ہوئی اور انھیں روسی جارحیت کے خلاف استعمال کیا گیا۔ترقی پسندوں کی روسی حمائت میں تحریریں اور جہادی تنظیموں کے خلاف ہرزہ سرائی سے تا ریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔کمال یہ ہوا کہ اس جنگ میں امریکہ یورپ،اسلامی ممالک اور پاکستان روسی جارحیت کے خلاف ایک ہی پیج پر تھے اور روس کو ہر حال میں شکست دینا چاہتے تھے۔جہادی تنظیمیں چونکہ امریکہ کی سر پرستی میں بنائی کئی تھیں لہذ ترقی پسندوں نے امریکہ کے ساتھ ساتھ ان جہادی جماعتوں کو بھی کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ امریکہ کے خلاف ان کی تحریریں امریکی سامراجانہ ذہنیت کو ننگا کرنے میں پیش پیش تھیں۔اس مرحلے پر پاکستانی سوسائٹی دو گروپوں میں منقسم ہوگئی۔
ایک طرف مذہبی گروہ، امریکہ اور پاکستانی حکومت تھی جبکہ دوسری جانب ترقی پسند گروہ اور جماعتیں تھیں جس میں پی پی پی اور عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) سرِ فہرست تھیں۔جولائی ١٩٨٨ میں روسی شکست کے بعد ترقی پسندی کا شجر دھڑام سے زمین بوس ہوا اور سوشلسٹ انقلاب اپنے انجام سے دوچار ہوا تو ترقی پسندوں کیلئے اسے برداشت کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ سویت یونین کی شکست ان کے اپنے نظریات کی شکست تھی۔تاریخ کا ستم دیکھئے کہ اس دور کا لکھا گیا سارا لٹریچر رائیگاں چلا گیا کیونکہ اب اس لٹریچر کا کوئی قاری ہی باقی نہیں بچا تھا ۔اس سارے منظر نامے میں سوال یہ پیدا ہوا کہ ترقی پسندی کے دعویدار کہاں جائیں گئے اور ان کا مستقبل کیا ہو گا کیونکہ سویت یونین اب دنیا کے نقشے سے مٹ چکا تھا؟سویت یونین کا قائم کردہ سوشلسٹ نظام اپنے منطقی انجام سے دوچار ہو گیا تو ترقی پسندی کی تحریک بھی دم توڑ گئی۔
اب ترقی پسندوں (سرخوں ) کیلیئے کوئی جائے پناہ باقی نہیں رہی تھی ۔وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کیلئے والا معاملہ تھالہذا سارے سرخے جو کسی زمانے میں امریکہ کو سامراج قرار دیا کرتے تھے اب اسی کے قدموں میں گرے ہوئے تھے کیونکہ اب اس کے نام کا سکہ چلتا تھاانھیں اب روس کی محبت آڑے نہیں آ رہی تھیں کیونکہ روس اپنے سارے جاہ و جلال کے ساتھ قصہِ پار ینہ بن چکا تھا اور امریکہ عالمی سیاست میں ایک نئے آقا کی صورت میں جلوہ افروز ہو چکاتھا ۔اس خا ص مقام پر سرخے بالکل نئے روپ میں جلوہ گر ہوئے اور امریکہ کی جمہوری فکر اور انسانی حقو ق کے بارے میں اس کے دلکش نعروںکے اسیر بن کر نیو ورلڈ آرڈر میں ان کے کردار کو سراہنے لگے ۔ ایسا کرتے وقت انھیں بالکل یاد نہ رہا کہ وہ کل تک اسی امریکہ کے لتے لیتے تھے اور اسے سامراج کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
سچ کہتے ہیں مفادات بدل جائیں تو نظریات بھی دم توڑ جاتے ہیںاور انسان نئی منزلوں کا راہی بنتا ہے لیکن اس کی بات میں دم خم باقی نہیں رہتا کیونکہ کاسہ لیسی متاثر کرنے کے جوہر سے محروم ہو تی ہے۔مذہب سے ترقی پسندوں کی مخالفت ایک ابدی حقیقت ہے۔انھیں اسلامی فکر سے جو پرخاش ہے وہ اس کا اظہار کھلے انداز میں کرتے ہیں۔ان کیلئے مادر پدر آزادی اور کسی بھی قسم کے مذہبی ضابطوں میں خود کو پابند کرنا قبول نہیں ہوتا لہذا امریکی سوچ سے ان کی قربت کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔روس سے ان کی ہم آہنگی میں بھی یہی سوچ کار فرما تھی کہ سوشلسٹ نظام مذہب کی نفی کرتا تھا اور کسی بھی اخلاقی ضا بطوں کا خود کو پابند نہیں کرتا تھا ۔ان کے اندازِ فکر میں روس اور امریکہ میں کوئی بنیادی فرق نہیں کیونکہ دونوں اسلامی فکر کے مخالف ہیں۔
ترقی پسندوں کیلئے مذہبی پا بندیوں کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتا لہذایورپ کی جانب ان کے جھکائو کو سمجھنا چنداں دشوار نہیں ہوتا۔وہ ایسے ماحول کے علمبردار ہیں جس میں زن و مرد کے اختلاط میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور اخلاقی پابندیوں کا کوئی شائبہ نہ ہو۔وہ جو چاہیں، جیسا چا ہیں اور جہاں چاہیں کر تے پھریں کوئی ان سے پوچھنے والا نہ ہو۔وہ ایک ایسی فکر کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں جسے بابر نے کئی صدیاں پہلے اپنی شعرہ آفاق کتاب (تزکِ بابری) میں یوں بیان کیا تھا(بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ) ان کا سار فلسفہ اسی عیش پسندی کے گرد گھو متا ہے او اس فلسفے میں انہیں امریکہ ، یورپ اور روس ہی راس آتا ہے کیو نکہ اسلام اس طرح کے خیالات کی حو صلہ افزائی نہیں کرتا ۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ