سال 2011ء کا ابتدائی مہینہ تھا۔ وفاقی جامعہ اُردو عبدالحق کیمپس کے شعبہ ابلاغ عامہ میں صبح کے دس بجے نہایت شفیق استاد پروفیسر وحید الرحمن ( یاسر رضوی) صحافت کے میدان میں نئے آنے والے طلبہ و طالبات سے رپورٹنگ کی مشق کروا رہے تھے۔
پروفیسر صاحب فرضی پریس کانفرنس کر رہے تھے جس پر اُن کے بیان کردہ جملوں کی رفتار کا ساتھ دینے کے لئے طالب علموں کے قلم بھی اُسی تیزی سے کاغذ پر چل رہے تھے۔ لفظوں کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کے قلم رکتے اور کچھ اس طرح کی آوازیں سنائی دیتیں، “سر پلیز ریپیٹ کیجئے گا “۔ ہونٹوں پر دھیمی مسکراہٹ لیے چشمے کے پیچھے سے ایک طائرانہ نظر سب پر ڈالتے ہوئے کہتے، ” ارے بھئی! جب ملک کا وزیرِاعظم یا صدر میڈیا سے خطاب کرتے ہے تو کیا کوئی رپورٹر اُنہیں ٹوکتا ہے؟ کبھی کسی رپورٹر کو دیکھا ہے یہ کہتے ہوئے؟ اس طرح سے تو آپ کبھی اچھے صحافی نہیں بن سکتے”۔
وہ صحافتی امور سمجھاتے ہوئے بتاتے تھے کہ صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں قدم قدم پر خبروں کے لئے لفظوں کا چنائو بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی خبروں میں جاں بحق، ہلاک جیسے لفظوں کے درست استعمال اور خبروں کے توڑ جوڑ سکھاتے سکھاتے ایک دن خود اُن کا نام دہشتگردی کی خبر بن گیا۔ جن ہاتھوں کو اُنہوں نے خبریں بنانا سکھائیں،29 اپریل 2015ء کو ایک وقت ایسا بھی آیا جب اُنہیں ہاتھوں نے اُن کی خبر بھی بنائی۔
مقالہ کی تکمیل میں پروفیسر وحید الرحمٰن کا تعاون کسی بھی طالب علم کے لئے بہت اہم ہوا کرتا تھا۔ ابلاغ عامہ کے طالب علموں کو استاد تو بہت مل جائیں گے لیکن اُن جیسا شاید اب نہ مل سکے۔
وحید الرحمٰن علم کا وہ دریا تھے جو بیشتر علم کے پیاسوں کوسیراب کر گئے۔ وہ روشن چراغ تھے جس نے کئی دیے روشن کیے۔ ان کے روشن کیے دیے آج ذرائع وابلاغ کی دنیا میں ہر سو اجالا پھیلائے ہوئے ہیں۔ استاد روحانی اعتبار سے کبھی نہیں مرتے۔ وہ زندہ رہتے ہیں۔ اپنے چاہنے والوں کے ذہنوں میں کسی تحریر کی صورت اور دلوں میں یاد کی صورت نقش رہتے ہیں۔ آج جب اُن کے زیرِ تربیت طالب علم صحافت کی دنیا میں عملی قدم رکھ چکے ہیں تو ان کے استاد کے رہنما اصول ہی ان کے لیے مشعل راہ ہیں۔
سچائی اور حقائق کو دنیا کے سامنے لانا اتنا بڑا جرم نہیں ہوتا کہ اُسے سزا کے طور پر زندگی سے ہی محروم کر دیا جائے۔ دہشت گردوں نے پروفیسر وحید الرحمٰن جیسے متعدد نایاب و نادر ہیروں کو کوڑیوں کے مول روند ڈالا۔
علمی و ادبی شخصیات سے محروم ہو جانے والے کراچی نے امن وامان کے حصول کے لئے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اس شہر کی مائوں نے اپنے جوان بیٹے اور طالب علموں نے شفیق استاد کھوئے ہیں۔
پروفیسر وحید الرحمٰن کے قاتلوں کو گرفتاری اوراِنہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے بلند و بالا دعوئوں کے بعد عدم ثبوت کی بناء پر رہا بھی کر دیا گیا۔ ان کے اہل خانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہے۔
کراچی سمیت ملک بھر میں کتنے ہی پروفیسر وحید الرحمٰن جیسے لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ جہاں تحقیقات کی ضرورت پیش ہی نہیں آتی۔ اکثر وبیشتر تحقیقات شروع ہونے سے پہلے ہی سرد خانوں میں دب جایا کرتی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح آج پروفیسر وحید الرحمٰن کے قتل کا باب کبھی نہ کھلنے کے لئے بند ہوچکا ہے۔