کراچی (اسٹاف رپورٹر)ڈاکٹر نزہت عباسی کے دوسرے شعری مجموعے وقت کی دستک کی تعارفی تقریب آرٹس کونسل کی لائبریری کمیٹی نے ۸ مارچ عالمی یومِ خواتین کے موقع پر منعقد کی،جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی،مہمانِ خصوصی ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اور مہمانِ اعزازی ظفر محمد خان ظفر تھے۔نظامت کے فرائض راشد نور نے انجام دیے،دیگر مقررین میں گلنار آفرین،پروفیسر رضیہ سبحان،صبیحہ صبا،اختر سعیدی،ڈاکٹر ہما میر،ثبین سیف اور سہیل احمد تھے۔پروفیسر سحر انصاری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نزہت ان کی شاگرد ہیں انہوں نے مستقل مزاجی اور ادبی رغبت سے اپنا سفر طے کیا ہے،اپنی قابلیت اور محنت کی بدولت غیر معمولی ترقی کی ہے و،تخلیقِ ادب کا جتنا تعلق درونِ ذات تک پہنچنے سے ہے اتنا ہی خارجی دنیا کے عوامل بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں ،اس تغیر کا رخ ہمیں اپنے یہاں کی خواتین اہلِ قلم میں بھی نظر آتا ہے ،نزہت ادبی سماجیات کو بھی پیش نظر رکھتی ہیں،ڈاکٹر ایس ایم قریشی نے اپنا دلچسپ مضمون پیش کرتے ہوئے کہا کہا کہ نزہت یقینِ کامل اور اعتمادِ کلی کی شاعرہ ہیں ان کے کلام میں الفاظ اور افکار کا حسین امتزاج ملتا ہے،ایک غیر مرئی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے،انہوں نے نزہت عباسی کے مختلف اشعار کو مختلف شخصیات پر منطبق کیا۔ظفر محمد خان نے کہا کہ نزہت عباسی کا تعلق علمی و ادبی خاندان سے ہے ان کے والد محمد حسین ظفر انجمی صاحب دیوان شاعر اور انجم فوقی بدایونی کے جلیل القدر شاگردتھے، انہوں نے ظفر انجمی کے اشعار بھی سنائے۔ انہوں نے کہا کہ نزہت کی شاعری میں محبت کا رچاؤ اور انسانیت کی خوشبو ملتی ہے ،انہوں نے نسائی لہجے کو اعتبار بخشا ہے،گلنارآفرین نے کہا کہ نزہت بہت ادب احترام کرنے والی ہیں،ان کی شخصیت اور شاعری میں خلوص ہے، ان سے ایک قلبی تعلق ہے،نزہت نے اپنی زیرِنگرانی میں ایک طالبہ سے ایم اے اردو کا مقالہ ان کی شخصیت اور فن پر لکھوایا تھا،اور اپنے تعلیمی ادارے میں ہونے والے مشاعروں میں بھی کئی بار مدعو کیا تھا،پروفیسررضیہ سبحان نے کہا کی نزہت ان کی شاگرد ہیں انہیں ان پر فخر ہے، ان کی کامیابی پر ان کا دل خوشی سے باغ باغ ہوجاتا ہے،نزہت جتنی اچھی انسان ہیں اتنی ہی اچھی شاعرہ ہیں،کتاب کا ٹائٹل انہوں نے بڑی محبت سے بنایا ہے، ان کے شعر مجموعے میں غزلیں ،نظمیں ،قطعات، ہائیکو منفرد اندازِ فکر کی حامل ہیں،انہوں نے ہر صنفِ سخن سے انصاف کیا ہے،صبیحہ صبا نے کہا کہ نزہت سنجیدگی اورمستقل مزاجی سے اپنا کام کررہی ہیں ،علم و ادب سے جڑی ہوئی ہیں،کی شاعری میں زندگی کے رنگ ہیں،وہ ادبی لحاظ سے بہت فعال ہیں۔اختر سعیدی نے کہا کہ نزہت بھرپور تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ہیں وہ ذہین شاعرہ ہیں،نقاد ہیں،محقق ہیں،مضمون نگار ہیں، اردو ادبیات کی استاد ہیں،ان کی شخصیت اور فن کی کئی جہات ہیں جن میں وہ کامیاب ہیں، انہوں نے ہمیشہ امید کا دامن تھامے رکھا ہے،ڈاکٹر ہما میر نے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نزہت عباسی کو عہدِ حاضر کی باشعور شاعرہ قرار دیا،انہوں نے کہا کہ پاکستانی خواتین نے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ہے،ادب میں بھی ان کام قابلِ تعریف ہے،ثبین سیف نے وقت کی دستک کے لیے ایک خوبصورت قطعہ پیش کیا اور کہا کہ نزہت کی شاعری میں ان کی شخصیت اجاگر ہے،جرات،روایت ،صلاحیت کا ادراک ان کی شاعری میں نظر آتا ہے،نزہت نے غزل کو فرسودگی کے حصار سے نکال کر وسعت اور بلندی عطا کی ہے،سہیل احمد نے کہا کہ آج کی تقریب ایک یادگار تقریب ہے، راشدنور نے کہا کہ وقت کی دستک دبستان غزل کے زیرِ اہتمام شایع ہوا ہے۔ نزہت عباسی کا ی شاعری اردگرد کی صورتحال کی شاعری ہے،ان کی ایک منفرد نسائی آواز ہے جو بلند ہو رہی ہے،انہوں نے نزہت عباسی کی ادبی زندگی کا مختصر جائزہ پیش کیا،نزہت عباسی نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا اور کہا کہ ان کے اساتذہ،والدین اور احباب کی محبتیں اور دعائیں ہیں کہ آج وہ اس مقام پر ہیں، ان کا پہلا مجموعہ سکوت دس سال پہلے شایع ہوا تھا اس عرصے میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں جس کی عکاسی ان کی شاعری میں ہوتی ہے،ڈاکٹر نزہت عباسی کو ادارہ فکرِ نو کی جانب سے ادبی خدمات پر نشانِ سپاس اور دبستانِ غزل کی جانب سے خدمتِ علم وادب کا ایوارڈ بھی دیا گیا،تقریب میں شہر کی معروف شخصیات موجود تھیں،جن میں قادر بخش سومرو،اقبال احمد خان،اویس ادیب انصاری،ڈاکٹر اوج کمال، ،منیف اشعر ڈاکٹر عائشہ کفیل،کفیل برنی،آیرین فرحت،زیفرین، ماہ نورخانزادہ،شاہین حبیب صغیر احمد جعفری،شگفتہ شفیق، آفتاب عالم، ایوب عباسی، ضیا شہزاد،روبینہ تحسین،عظمہ علی خان ، اعتزاز عباسی،ظفر عباسی،فاکہہ عباسی وغیرہ شامل تھے۔آخر میں محمد علی گوہر نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔