تحریر : مقصود انجم کمبوہ
اِس جدید دور میں یورپین ممالک نے پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں کے خدوخال میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے اقدامات کئے ہیں فرانس اور جرمن کی ٹیکنیکل یونیورسٹیوں میں جدید سکل کے سلیبس شامل کئے جا رہے ہیں لیبارٹریوں اور ورکشاپوں میں وقت کے تقاضوں کے تحت تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں ۔پیشہ وارانہ تعلیمی نظام کو جدید بنانے کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنسدانوں ،انجینئرز اور ٹیکنالوجسٹس کو زیادہ سے زیادہ ترغیبات ،سہولیات اور مراعات کی پیشکش کی جا رہی ہے ۔جرمن کی یونیوسٹیوں اور ٹیکنیکل یونیورسٹیوں میں حصول تعلیم کی اوسط مدت سات سال سے زیادہ ہے اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ طلباء کی تعداد میں معتبہ اضافہ ہو ا ہے ۔ علاوہ ازیں ایک اور وجہ یہ ہے کہ بعض طلباء کا یہ رجحان ہے کہ وہ یونیورسٹی میں قیام کے زمانے کو انتہائی دلچسپ اور پُر لطف سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیںکہ وہ زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک وقت یونیوسٹی میں گزارا جائے۔
اس صورت حال کے پیش نظر سائنس کونسل نے بعض سفارشات پیش کیں جو یہ ہیں۔٭ پیشہ وارانہ تعلیم کے لیے داخلے کے امتحانات سمیت مطالعاتی کورس زیادہ سے زیادہ چار سال اور تین ماہ میں مکمل ہو جانے چاہیئں۔٭ اہل اور موزوں گریجوایٹس کو مختلف مضامین میں اسپیشلائزیشن کرنے کے لیے پوسٹ گریجوایٹ کورس کرنے یا ڈاکٹریٹ کرنے کی پیشکش کی جانی چاہیئے۔٭ تعلیمی پروگرام میں اعلیٰ تربیتی کورس شامل کئے جانے چاہیئں۔اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے صوبوں نے تعلیم اور ثقافتی امور کے وزیروں کی کانفرنس کے وسط سے 1989 میں بعض اہم اقدامات کی منظوری دی جن کا مقصد تعلیمی کورسوں کی تکمیل کا مقررہ دورانیہ کم کرنا تھا۔
اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیت کے کالج اپنے معاملات میں خود مختار ہیں ۔ اور اپنے تربیتی پروگراموں میں یونیورسٹیوں کے پابند نہیں ہیں اگرچہ مضامین کا نصاب وہی ہوتا ہے جو یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے تاہم اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیتی کالجوں میں کورسوں کی عملی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ ان کالجوں میں اس بات کا بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے کہ تدریس کے لیے ایسے اساتذہ منتخب کئے جائیں جنہیں اپنے شعبے کی مہارت اور مضمون پر عبور حاصل ہو۔
ان کالجوں کے طلباء کو کالج میں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ کالج سے باہر متعلقہ شعبوں اور اداروں میں عملی تربیت بھی کرائی جاتی ہے ۔ اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیت کے کالجوں کے لیے مضامیں اور نصاب کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے اور نصاب اس طرح مرتب کیا جاتا ہے جو عملی ضروریات اور وقت کے تقاضے پورے کر سکے ۔ ان کالجوں میں نظری تعلیم کے مقابلے میں عملی تربیت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کالج میں تعلیم و تربیت کے علاوہ طلبہء کو کارخانوں اور مخصوص منصوبوں کی جگہ لے جا کر ان سے عملی کام کروایا جاتا ہے ان کالجوں کی ایک اور نمایاں بات یہ ہے کہ ان کے کورسوں کا دورانیہ نسبتاً کم یعنی تین سے چار3,1/2 سال مدت کا ہوتا ہے ۔البتہ باڈن ورٹیمبرگ اور باویریا میں اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیتی کالجوں میں کورس کی تکمیل کی مدت زیادہ ہے۔
ان کالجوں کا نصاب یونیورسٹیوں کے نصاب سے مختلف ہوتا ہے اور کورس دو مرحلوں میں مکمل ہوتا ہے ۔ طلباء کو اسپیشلائزیشن کے لئے مضامین منتخب کرنے کا ختیار ہوتا ہے ۔ کورس مکمل ہونے کے بعد فائنل امتحان ہوتا ہے جس میں طویل تحریری پرچے ہوتے ہیں جن کے بعد طلباء کو زبانی امتحان کے مرحلے سے گزرنہ پڑتا ہے ۔ کامیاب امیدوروں کو ان کے مضامین اور شعبے کی تعلیم و تربیت کی تکمیل کی سند دی جاتی ہے۔
ان کالجوں کو اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیت کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے اور بعض پہلوئوں سے یہ کالج پولی ٹیکنیک اداروں سے مماثلت رکھتے ہیں ۔ اعلیٰ پیشہ وارانہ کولجوں میں مقررکورس کی تکمیل کے بعد کالجوں میں چند مخصوص مضامین میں مزید اسپیلائزیشن کے سلسلے عموماً ایک سال کی مدت کا ایک اور کورس کرایا جاتا ہے ۔یہ کورس ڈیٹا پروسیسنگ ، ایٹمی ٹیکنالوجی ، ٹراپیکل ٹیکنالوجی ، ماحول کے تحفظ اور انجینئر وں کے لیے معاشیات جیسے مضامین کے بارے میں ہوتے ہیں ۔ اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیتی کالجوں کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری جاری کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
تحریر : مقصود انجم کمبوہ