تحریر : ڈاکٹر منصور خوشتر
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی لسانیات کے ماہر نہیں ہیں اس کے باوجود انہوں نے لسانی مقابلے لکھے ہیں اور ایم اے تک کے طلباء کو برسہابرس پڑھاتے بھی رہے ہیں۔پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے ”لسانی لغت” تیار کی تو اس شعبہ میںان کی بصیرتاور فراست نے تنگ دامانی پردستک دی اور وسعت کا احساس دلایا۔ ایک، سوا سال میں اس لغت کے چار ایڈیشن آگئے۔ اضافہ کے ساتھ سہ ماہی ”مفاہیم” رانچی نے دوسرے شمارہ میں پوری لغت شائع کی اور سہ ماہی ”اصنام شکن” وشاکھا پٹنم نے اعلان کیا ہے کہ تازہ شمارہ سے یہ لغت قسط وار شائع کریں گے۔ ان دنوں ڈاکٹر ہرگانوی انگیکا زبان کی پہلی لغت انگیکا، اُردو، ہندوی اور انگریزی میں ایک ساتھ تیار کررہے ہیں۔الفاظ کی تفہیم پر پروفیسر ہرگانوی کی دسترس کے پیش نظر میں نے ان کے رو برو چند سوالات رکھے۔ وہ پی ایچ ڈی کا ایک ایک وائوا لینے کے لئے متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ آئے ہوے تھے اور ان کا قیام پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کے یہاںتھا۔ میں صبح سویرے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ ملاقاتیوں کی بھیڑ سے قبل ان سے انٹرویو لے سکوں۔ رسمی گفتگو کے بعد میں نے ان سے سوال کیا۔
خوشتر: آج اُردو کی مقبولیت کم ہوتی جارہی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
ہرگانوی:آپ نے یہ کیسے اندازہ کرلیا کہ اُردو کی مقبولیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اُردو چار دانگ عالم میں بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ اکیسویں صدی میں یہ آنکڑہ سامنے آیا ہے کہ اس وقت دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی زبان اردو ہے۔ اُردو کی اپنی نشانیاں ہیں، اپنا لہجہ اور تلفظ ہے، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت ، اپنی روایت، اپنا تمدن اور اپنی انفرادیت کا تحفظ یقینی طور پر ہے۔ تخلیق جدید کا اس میں اضافہ ہوتا ہی رہتا ہے۔خوشتر: عربی اور انگریزی بڑی زبانیں ہیں۔ اُردو داں کو ان سے واقفیت رکھنی چاہئے۔ کیوں؟ہرگانوی: ضرور رکھنی چاہئے۔کئی زبانوں کی جانکاری سے اپنی خود فریبی کا محاسبہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جہاں تک عربی اور انگریزی کی بات ہے بڑی زبانیں ضرور ہیں۔ لیکن اُردو سے بڑی نہیں ہیں۔
خوشتر: آپ کے اس جواب سے حیرت ہوئی۔ بطور ثبوت آپ وضاحت کرسکیں گے؟
ہرگانوی: میں بلاجواز اپنی بات نہیں کہہ رہا ہوں۔پہلے عربی کو لیتے ہیں ۔اُردو کے الفاظ خالو، پھوپھا، چچی، ممانی، سالا، بہنوئی، نند، بھاوج، جیٹھ، دیور، بھانجہ، بھتیجہ، سمدھی، سمدھن وغیرہ کے لئے عربی میں کوئی لفظ نہیں ہے۔ سکہ، چراغ جیسے سامنے کے الفاظ سے عربی خالی ہے۔ دراصل عربی زبان میں پ، ٹ، چ، ڈ، ڑ،ژ اور غ کی آوازیں ادا کرنے کے لئے بھی کوئی حرف نہیں ہے۔ اسی طرح بھ، تھ، پھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، کھ، گھ کے لئے بھی عربی میں کوئی حرف نہیں ملتا۔ اُردو میں ذخیرۂ الفاظ زیادہ ہیں۔
خوشتر: آپ انگریزی کے سلسلے میں بھی وضاحت کریں گے؟
ہرگانوی: کیوں نہیں۔ انگریزی میں اور زیادہ الجھاؤ ہے۔ مثال کے طور پررشتے کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ اُردو میں دادا، نانا، دوالگ الگ الفاظ ہیں۔ لیکن انگریزی میں Grand Father ہے۔اسی طرح داری اور نانی کے لئے Grand Father ہے۔ خالہ، پھوپھی، چچی اور ممانی کے لئے الگ سے الفاظ نہیں ہیں۔ رشتے کے علاوہ بھی دیکھیں تو ت اورٹ کی آواز کے لئے صرف ایک حرف T ہے۔ خ، غ اور ق کے لئے کوئی حرف نہیں ہے۔ اسی طرح چ، د اور ش کے لئے بھی حروف نہیںہیں۔ بلکہ دو حرفوں کو ملاکر یعنی چ کے لئے CH اور د کے لئے TH تلفظ ادا کیا جاتا ہے۔صرف اتنا ہی نہیں، ایک اور شکل دیکھئے۔ CH کی آواز CHARM میں ‘چ’ ہے، CHORUS میں ‘کسا’ ہے اور CHEF میں ‘ش’ ہے۔ لفظ ‘D’ کی آوازDEAR میں ”ڈ” اور GRADUATE میں ”ج” ہے۔ لفظ ‘G’ کو لیں تو GET میں ”گ” اور GEM میں ”ج” ہے۔ اسی طرح کے الفاظ اور بھی ہیں۔ ایک اور لفظ T کو لیں۔ TEA میں ”ٹ” اور NATURE میں ”چ” ہے۔ اُردو کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ایک جیسے الفاظ کے لئے متعد د حروف ہیں۔ مثلاً ،ڈ،ز،ض،ظ،ث،س، ص وغیرہ سے اس کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اُردو کے حروف کا صحیح لسانی مطالعہ اور تقابلی جائزہ ضروری ہے تاکہ نئی نسل کو اُردو کی ہمہ گیریت کا اندازہ ہوسکے۔
خوشتر: اُردو نے کئی زبانوں کے الفاظ کو اپنایا ہے، کیا یہ خوبی ہے؟
ہرگانوی: یقینا ہے، عربی، فارسی، ہندی ، سنسکرت، ترکی، انگریزی اور بھی کئی زبانوں کے بے شمار الفاظ کو اُردو نے کسی تغیر یا تخفیف کے بغیر اس طرح جذب کیا ہے کہ اسی کے معلوم ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اردو کے نئے مصدر ڈھالے ہیں اور سابقے اور لاحقے اس میںدوسری زبانوں سے زیادہ ملتے ہیں۔ یہ اُردو کی ترکیب نحوی کی کشادگی ہے کہ دوسری زبان کے الفاظ کو سموکر نئی پہچان دیتی ہے۔
خوشتر:ان سب کے باوجود میں اب بھی کہوں گا کہ اُردو زبان تہی داماں ہے اور یہ سائنسی تقاضے کو پورا نہیں کرسکتی۔
ہرگانوی: نہیں، ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ہمیں پرکھنے اور سمجھنے میں غلطی ہورہی ہے۔ آج بس تعصب کی عینک سے اُردو کودیکھا جارہا ہے اور ہم جس بے نیازی سے اُردو کو توڑ جوڑ کا شکار بنارہے ہیں ۔ اس سے ایسے خیالات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ کبھی دہلی کالج میں، پھرعثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد میں ذریعہ تعلیم اردو تھی جس میں سائنس سبجیکٹ، میڈیکل اور انجینئرنگ کی کتابیں اور اُردو میں پڑھائیجاتی تھیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُردو سائنسی تقاضے پورا کرتی رہی ہے۔ سرکاری، دفتری، عدالتی، تعلیمی اور کاروباری ثقاضے کشمیر سے لے کر بہار تک آج بھی اُردو کی آغوش بنے ہوئے ہیں۔
خوشتر: کیا باہر کی بستیوں میں اُردو اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب ہے؟
ہرگانوی: بالکل ہے اردو کا عالمی فروغ دیکھیں تو اساس، سمت اور رفتار کااندازہ ہوگا، ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ اردو سری لنکا، ایران، افغانستان، عرب اور خلیجی ممالک، برطانیہ، کنیڈا، امریکہ، اسپین، فرانس، ہالینڈ، جرمنی، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، ماریشس، فجی، مالدیپ وغیرہ ممھالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ Collin’s Encyclopaediaاور گنیزبک آف ریکارڈ کے حوالے سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اُردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ نمبر ایک پر چینی اور دوسرے نمبر پر انگریزی ہے۔ یہ جائزہ 1990ء کے بعد آیا تھا۔ آج بیس پچیس سال بعد 2015ء میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اُردو دوسرے نمبر پر ہے۔ ایک سروے کے مطابق ساٹھ سے زیادہ ممالک میں لکھی، بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے، سچ تو یہ ہے کہ اردو وسیع المشرب زبان ہے اور بین الاقوامی قومیت کی علامت ہے۔
خوشتر: موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہرکوئی اپنی مرضی کے تابع انگریزی کے الفاظ اور اصطلاحات غلط طریقہ سے اردو میں استعمال کرتا ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ہرگانوی: ایسا دھڑلے سے ہورہا ہے۔ اخبار، ٹی وی اورعام بول چال میں بھی۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ غلط الفاظ اور اصطلاحات روز مرہ لسانی زندگی کا جزو بنتے جارہے ہیں۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ آپ دودھ ضرور پیتے ہوں گے۔ گھر والے ایک کلو یا دو کلو دودھ منگواتے ہوں گے۔ لیکن یہ ایک کلو دودھ منگوانا ہم غلط استعمال کرتے ہیں۔ دودھ کو کلو گرام میں نہیں ناپ سکتے۔ کلوکسی ٹھوس چیز کے وزن کی اکائی ہے۔ دودھ، پانی، پٹرول وغیرہ مائع کو تولا نہیں بلکہ ماپا جاتا ہے۔ ان کی اکائی لیٹرہے۔ کپڑے وغیرہ کے لئے میٹر ہے۔ دودھ لیٹر میں صحیح اور درست ہے۔ لیکن ہم کلو میں استعمال کرنے لگے ہیں۔اس طرح ہم زبان پر مرتب ہونے والے اثرات پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔
خوشتر: کیا علمی نظریہ سازی اصطلاح سازی کے بغیر ناممکن ہے؟
ہرگانوی: کسی بھی علمی، تحقیقی اور فلسفیانہ تحریر میں درست اور قطعی ابلاغ کے لئے اصطلاع سازی اساسی کردار ادا کرتی ہے۔ اب یہ استعمال کرنے والے پرہے کہ یہ ہمہ جہت اورمتنوع ہے یا نہیں۔ تحقیقی مراحل اور علمی جزئیات کے تناظر میں اسے دیکھنا چاہئے۔
خوشتر: آج مشینی ترجمے کا دور آگیا ہے۔ اُردو میں اس کے امکانات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ہرگانوی: یہ انگریزی سسٹم ہے جس کی وجہ سے اُردو ترجمے میں دشواریاں ضرور ہیں۔ انگریزی کے اکیس Tenses کے مقابلے میںاُردو میں پچاس سے زائد ٹینس ہیں اس لئے مختلف فقرات یا اجزا میں کاٹنا یا قلع کرنا یا مشترک جملے بنانا دقت طلب ہے۔ ١٩٥٤ء میںپہلے پہل جارج ایکسپریمنٹ نے آئی ایم بی کمپنی کے اشتراک سے مشینی ترجمہ(MT) کا تجربہ کیا تھا۔ ماہرین اس پر لگاتار کام کررہے ہیں لیکن ابھی تک یہ حل طلب مسلہ بنا ہوا ہے۔ اُردو میں وقت لگے گا۔
خوشتر: اندنوں آپ لغت پر کام کررہے ہیں۔ ہندوستانی زبان کی پہلی لغت کس نے تیار کی تھی؟
ہرگانوی: فورٹ ولیم کالج کے ڈاکٹر جان گل کرسٹ پہلے مصنف ہیں جنہوں نے ١٧٩٠ء میں ہندوستانی زبان کی لغت شائع کی۔ گل کرسٹ کی تصنیف یا تالیف کردہ سولہہ کتابیں ملتی ہیں جن میں بیشتر کا موضوع لغت یا اُردو گرامر ہے۔
خوشتر:بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہم سے اتنی اچھی گفتگو کی۔
ہرگانوی: آپ کے سوالات منفرد تھے اس لئے آپ کا بھی بیحد شکریہ۔
تحریر : ڈاکٹر منصور خوشتر
رابطہ:9234772764