تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ پوری قوم تمامتر خامیوں ،خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود حب الوطنی کے جذبے سے ہمیشہ سرشاررہتی ہے۔ یہ جذبہ ،یہ جنوں قومی دنوں کے مواقعے پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ تب کوئی سندھی ہوتا ہے نہ بلوچی ،پنجابی ہوتاہے نہ پختون ،سب پاکستانی ، صرف پاکستانی ۔دودِن پہلے کراچی سے خیبر تک پوری قوم نے 69 واں یومِ آزادی اسی جوش وجذبے سے منایا جو اِس کا خاصہ ہے۔ اِس بار تو یومِ آزادی کچھ زیادہ ہی ”کھُلے ڈُلے” اندازمیں منایاگیا۔سبب یہ کہ محترم جنرل راحیل شریف کی زیرِ قیادت پاک فوج کے جری جوانوں نے دہشت گردی کے ناسور کو جَڑسے اکھاڑ پھینکا۔ زیادہ ترواصلِ جہنم ہوئے اوربچے کھچے چوہوں کی طرح اپنے بِلوں میں گھس گئے۔ بلوچستان میںیومِ آزادی پر 400 علیحدگی پسندوں نے ہتھیار ڈال کر قومی پرچم تھام لیے۔ کوئٹہ میں ریکارڈ قومی پرچم فروخت ہوئے اور کراچی میں تو یومِ آزادی کی تقریبات کی شان ہی نرالی تھی۔ 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب جونہی 12 بجے ،پورا کراچی سڑکوں پر امڈ آیااور روشنیوں کا شہرآتش بازی سے جگمگا اٹھا۔
14 اگست کو دو لاکھ سے زائدافراد نے مزارِقائد پرحاضری دی ۔اب کی باراہلِ کراچی نے جشنِ آزادی منانے کے لیے خریداری کا 40 سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 5 ارب روپے سے زائد کی خریداری کی ۔یہ اہلِ کراچی کااہلِ وطن کوبَرملا پیغام تھاکہ ”ہم سب ایک ہیں”۔یہی حال لاہوریوںکا بھی تھا۔لاہوریے توویسے بھی ہلّے گُلے کے شوقین ہوتے ہیں۔ منچلے 13 اگست کی شب کو گھروں سے نکلے اور 15 اگست کی صبح لوٹے۔ پاکستان کے تمام صوبوں کے تمام شہروںمیں یہی عالم رہا۔ ہرجگہ بچے، بوڑھے ،جوان اور عورتیں ہاتھوں میں قومی پرچم تھامے آزادی کے گیت گاتے رہے۔ اُدھربھارت کی سخت ترین پابندیوںاورظلم ستم کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بھی جشنِ آزادی بھرپور طریقے سے منایاگیا ۔حریت رہنماآسیہ اندرابی نے پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے کہا”ہم پاکستانی ہیںاورپاکستان ہماراہے”۔
اسی تقریب میںپاکستان کے ملّی نغمے بھی گائے گئے ۔9 اگست کومحترم الطاف حسن قریشی کی PINA اورUMTکے تعاون سے PC میں ”مسلٔہ کشمیر علاقائی امن وسلامتی کے لیے چیلنج ”کے عنوان کے تحت ایک سیمینارکا اہتمام کیاگیا جس میںمحترم سجادمیر نے بھارتی صحافی کلدیپ نائر کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اُس نے اپنے آرٹیکل میں لکھا”کشمیراتنا بدل گیاہے کہ اب پہچاناہی نہیںجاتا۔جب میںنے گزشتہ بارسری نگرکا وزٹ کیاتھا تومحسوس ہواکہ وادی نمایاںطور پربھارت دشمن بن چکی ہے ۔سری نگرکے اندرونی علاقوںمیں سبزپرچم لہراتے نظرآتے ہیں۔اِس کامطلب ہے کہ کشمیریوںکی بیگانگی اب برگشتگی میںتبدیل ہوچکی ہے اورہندوؤںاور مسلمانوںمیں سماجی تعلقات بھی بڑی حدتک منقطع ہوچکے ہیں”۔ کلدیپ نائرکے اِس آرٹیکل کی تصدیق مقبوضہ کشمیرکے باسیوںنے پاکستان کاجشنِ آزادی بھرپورطریقے سے مناکر کردی ۔اِس سیمینارمیں گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن،ممتازسفارتکار مسعودخان ، عطاء الحق قاسمی، ایس ایم ظفر، عطاء الرحمٰن ،سردارآصف احمدعلی، رؤف طاہر ،رشیدترابی، حافظ حسین احمد اور سردار ابراہیم کے صاحبزادے خالدابراہیم کے علاوہ کئی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔
ابتدائی کلمات جناب الطاف حسن قریشی نے ادا کرتے ہوئے فرمایاکہ مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ آزادی نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور نسلِ نَوکو حقائق سے باخبر رکھنابہت ضروری ہے ۔محترم عطاء الحق قاسمی نے بات توبہت مختصرکی لیکن اُن کی کشمیری بھائیوںسے محبت کے جذبوںمیں گُندھی نظم”تمہارے رستے میں روشنی ہو”میںوہ سب کچھ تھاجو ہم سننا چاہتے تھے۔”بے چین روح” ڈاکٹرعمرانہ مشتاق ،ڈاکٹرسعدیہ بشیر اور فاطمہ احمدنے اپنی شاعری سے ماحول کوگرمائے رکھا۔چارگھنٹوںپر محیط اِس مذاکرے کالبِ لباب یہ تھا کہ کشمیر کے تنازعے کے حل ہونے کاوقت قریب آن لگاہے اوربھارتی ظلم وجورکی گرتی دیواروںکو بس ایک دھکے کی ضرورت ہے۔
آمدم بَرسرِمطلب ، اب کی بار جشنِ یومِ آزادی کی شان ہی نرالی تھی ۔اگرتھوڑاساغورکیا جائے تویہ حقیقت عیاںہو جائے گی کہ پوری قوم کے ایک صفحے پرہونے کاسبب ”شریفین”کے کندھے سے کندھاملا کرکھڑے ہونے میں مضمر ہے۔ پاکستان کی تاریخ تویہی بتاتی ہے کہ سیاسی وعسکری قیادت نے کبھی ایک ”میز” پربیٹھنا گوارانہیں کیا جس کی بناپرہمیشہ مارشل لاؤںکی صورت میںالمیے رونماہوتے رہے لیکن اب کی باریہ معجزہ رونماہواکہ وزیرِاعظم میاںنوازشریف صاحب اورچیف آف آرمی سٹاف محترم جنرل راحیل شریف ہر جگہ اورہر مقام پراکٹھے نظرآئے۔اسی یگانگت نے وزیرستان میںدہشت گردی کوجَڑ سے اکھاڑپھینکااور ہر کسی کے لیے اپنی آغوشِ محبت واکرنے والے کراچی کی روشنیوںکا سفرپھر سے شروع ہوگیاجو باہربیٹھے الطاف بھائی کوگوارہ نہ ہواکیونکہ اگرکراچی ایک دفعہ پھرعروس البلادبن گیاتوالطاف حسین کو” بھائی ” کون مانے گا۔ اپنے استعفے کی ”نصف سینچری” مکمل کرنے کے بعد الطاف حسین نے اچانک اپنے اراکینِ پارلیمنٹ ،سینیٹرزاور ممبران صوبائی اسمبلی کومستعفی ہونے کاحکم دے دیا۔ بہانہ یہ کہ رینجرز کا کراچی میں اَپریشن غیرجانبدارانہ نہیں، ایم کیوایم کے خلاف ہے اِس لیے
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اُس کے آج حریفانہ کھینچئے
غلط ،بالکل غلط ،اگر آپریشن صرف ایم کیوایم کے خلاف ہوتاتو زرداری صاحب کویہ نہ کہناپڑتا کہ ”اینٹ
سے اینٹ بجادیں گے”۔ لیاری میںہرروز چھاپے پڑتے نہ سُنّی تحریک کے مرکزپر دھاوابولا جاتا ۔حقیقت یہی کہ آپریشن بلاامتیاز دہشت گردوں ،بھتہ خوروں ،پرچی مافیہ اورٹارگٹ کلرزکے خلاف ہورہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الطاف حسین کااچانک استعفوںکا فیصلہ اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی گہری سازش کا حصّہ ہے ۔پاکستان دشمن قوتوں ،خصوصاََبھارت کویہ اقتصادی راہداری کسی صورت قبول نہیں۔ بھارت ”را” کے ذریعے پاکستان میں افراتفری کے منصوبے بناتارہتا ہے اوریہ بھی اظہرمِن الشمس کہ ”بھائی” کو ”را” سے فنڈنگ ہوتی رہی۔اِس لیے لامحالہ کہناہی پڑتاہے کہ الطاف حسین استعفوں کے ذریعے افراتفری پیدا کر کے اپنے غیرملکی آقاؤں کے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ اُن کے مکروہ عزائم انشاء اللہ کبھی پورے نہیں ہوں گے۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر