ہندوستان (کامران غنی) ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صوفیائے کرام کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ صوفیائے کرام نے خانقاہوں کے توسط سے ساری دنیا کو امن و آشتی اور محبت و اخوت کا پیغام دیا۔ انھوں نے اسلام کی حقیقی روح سے ساری دنیا کو متعارف کرایا۔ ان کا پیغام ان کے دل کی آواز، ضمیر کی پکار ااورنسانی فطرت کا تقاضا تھا۔
تلاش حق میں سرگرداں اور امن و سکون کے متلاشی لوگوں نے ان کے پیغام کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ان کے پیغام کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر خود بھی کامیاب ہوئے اور ساری دنیا کو فلاح کو کامرانی کے راستے پر گامزن کیا۔ ایسے ہی صوفیا میں ایک اہم نام مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کا ہے، جنھوں نے سعی و جدوجہد کی طویل منزلیں طئے کیں اور نجات و کامیابی کا عظیم پیغام دیا۔ آپ نے سیرت ِ رسولۖ کا فکری و عملی نمونہ پیش کیا۔
اہلِ دل اور صاحبان خلوص اس سے متاثر بغیر ہوئے نہ رہ سکے۔ مخدوم جہاں کی ذات انسانیت کے لیے نقشِ راہ بن گئی۔ اس عقیدت کے اظہار کے ساتھ خانقاہ بلخیہ فتوحہ اور مخدوم جہاں کے سجادہ پروفیسر حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی ندوی سابق پرنسپل گورنمٹ طبی کالج، پٹنہ نے بہار شریف میں مخدوم جہاں کے عرس کو انجام دیا۔ بعد نماز مغرب فاتحہ و قل کے بعد مجلس سماع کا آغاز ہوا۔ جس میں بڑی تعداد میں عقیدمندان مخدوم جہاں شریک ہوئے۔ قوالوں نے مخدوم جہاں کی شان میں منقبتیں پیش کیں۔ عشاء کی اذان تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
دعا ء پر اس روح پرور مجلس کا اختتام ہوا۔ واضح رہے کہ مخدوم جہاں کی یہ مجلس 600سال کی قدیم تاریخی مجلس ہے۔ جس کا آغاز مخدوم جہاں کے خلیفہ ٔ خاص حضرت مظفر شمس بلخی نے کیا تھاجو آج تک جاری ہے اور بلخی سجادگان آستانۂ مخدوم پر انجام دیتے آ رہے ہیں۔ اہلِ علم اور صاحبانِ سجادگان اس تاریخی اہمیت سے واقف ہیں۔ اس لیے اس مجلس کو تاریخی امتیاز اور شرکت کو باعث خیر و برکت قرار دیتے ہیں۔
خاندان بلخیہ نے جب مخدوم جہاں کی خانقاہ کی بنیاد فتوحہ ،پٹنہ میں قائم کی اور بہار شریف سے نقل مکانی کر کے فتوحہ میں بود باش اختیار کی تب بھی اس مجلس کو بہار شریف آکر انجام دیتے رہے۔ فی الوقت یہ انتظام و انصرام سید شاہ ابو الفرح عبد اللہ کے ذمہ ہے جو موجودہ زیب سجادہ سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی نے انھیں اپنا خلیفہ نامزد کر کے تفویض کیا ہے اور وہ اسے بحسن و خوبی انجام دیتے آ رہے ہیں۔ ہر سال یہ مجلس 6 شوال کو انجام دی جاتی ہے۔