پٹنہ (پریس ریلیز) شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے سابق صدر اور ڈین، معروف و مقبول استاد پروفیسر یوسف خورشیدی کے انتقال پرشعبۂ اردو میں بے حد رنج وغم کا احساس کیا گیا۔ خبر ملتے ہی شعبہ اردو و عربی کے اساتذہ، طلبہ اور موجود مہمانوں نے ایک نشست کی اور مرحوم سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے خیرومغفرت کی۔
ڈاکٹر جاوید حیات نے پروفیسر خورشیدی کے انتقال کو ذاتی خسارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ میرے لیے ایک مربی اور رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔جب بھی کسی مشکل میں ہوا خورشیدی صاحب نے نہ صرف دلجوئی کی بلکہ رہنمائی فرماکر آسانیاں بھی پیدا کیں۔ وہ جب تک شعبے میں رہے انہوں نے شعبے کے وقار اور عزت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔وہ شعبۂ اردو کے ایسے صدرہوئے جن سے کی ادارے کی تاریخ روشن اور تابناک ہوتی ہے۔
انہیں شعبے سے گہرا لگائو بھی تھا جس کا اظہار وہ اکثر اپنی گفتگو میں کرتے تھے۔شعبے کے سابق صدر اور مرحوم کے شاگردڈاکٹر اسرائیل رضا نے بے حد جذباتی انداز میں پروفیسر یوسف خورشیدی کے انتقال کو اپنا ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ موصوف میرے مشفق استاد بھی تھے اور گارجین بھی۔انہوں نے اپنے بچوں کی طرح میری بھی رہنمائی اور سرپرستی کی۔ وہ بیحد مخلص ،بے غرض اور اپنے رفقاء کار،شاگردوں اور دوستوں سے محبت کرنے والے شخص تھے۔انہوں نے تقریباً نصف درجن مطبوعات چھوڑی ہیں مگر ”عظیم آباد کا یادگار مشاعرہ” ان کی یادگار اور بے مثال تصنیف ہے جسے بے انتہا شہرت حاصل ہوئی۔
سابق صدر شعبہ اور مرحوم کی شاگردہ ڈاکٹر اشرف جہاں نے پروفیسر یوسف خورشیدی کو بہت اچھا او راپنا پسندیدہ استاد بتاتے ہوئے ان کی تدریسی زندگی اور اوصاف کو یاد کیا۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر خورشیدی اپنے طلبہ کے ساتھ بے حد مشفقانہ برتائو کرتے تھے اور طالب علموں کی ہر پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھتے تھے ۔وہ ایک آئیڈیل استاد تھے اس لیے بے حدمقبول بھی تھے۔ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو مختلف یونیورسیٹیوں،اداروں اور انتظامی شعبوں میں ان کا اور شعبۂ اردو کا نام روشن کر رہے ہیں۔
شعبے میں موجود مہمان ڈاکٹر قاسم خورشید نے کہا کہ مرحوم ایک سادہ اور کم گو شخصیت کے مالک تھے مگر جب قلم ہاتھ میں لیتے تو بے حد بے باک اور تجز یاتی انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ان کا ادب اور زندگی کا ایک واضح تصور تھا ۔ وہ ادب برائے زندگی کے قائل تھے اور اس کا اظہارانہوں نے اپنی تحریروں میں بارہا کیاتھا۔وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے جس کا نمونہ وہ کبھی کبھی قطعات تاریخ کی صورت میں پیش کرتے رہتے تھے۔
شعبہ کے استاد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کہا کہ میری کم نصیبی ہے کہ مجھے ایسے مقبول عام استاد سے کسب علم کا موقع میسر نہ آسکا،مگر پٹنہ یونیورسٹی جوائن کرنے کے بعد ڈاکٹر اسرائیل رضا اور ڈاکٹر جاوید حیات کی معیت میں ان سے کئی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔وہ بے حد مخلص اور محبتی شخص تھے اور شعبے کے اساتذہ کی کارکردگیوں پر پوری نظر رکھتے تھے ۔انہوں نے میری کتابیں دیکھی تھیں اور شعبے میںہونے والی سرگرمیوں کی وجہ سے مجھے اپنے بیحد عزیزلوگوں میں گردانتے تھے۔انہوں نے اپنے گھر پر کئی نشستوں میں مجھے خصوصی طور پر شرکت کی سعادت بخشی۔وہ ایک مہمان نواز اور فیاض شخصیت کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ پروفیسر یوسف خورشیدی کا حافظہ بلا کا تھا،وہ اردو کی کلاسیکی کتابوں سے اقتباسات اور حوالے سبکدوشی کے پندرہ سال بعد بھی بہ آسانی سنا سکتے تھے۔
شعبہ عربی کے صدر ڈاکٹر مسعود کاظمی نے کہا کہ ایک عالم کی موت ایک جہان کی موت ہوتی ہے کیوں کہ اس کے ساتھ علم و دانشوری کی کائنات رخصت ہو جاتی ہے۔پروفیسریوسف خورشیدی اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے اساتذہ میں بھی اپنی علمی اور ادبی خدمات کے سبب معروف تھے۔ان کے ذریعہ کہے گئے قطعات تاریخ اخباروں کے ذریعہ پڑھ کر ہم ان کی شاعرانہ صلاحیت اور ندرت اظہار کا اعتراف کرتے تھے۔ان کے انتقال سے بہار ہی نہیں ہندستان بھر میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے ،اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔نئی نسل کو انہوں نے مرحوم کی تصنیفات کو پڑھنے اور ان کی خدمات سے سبق حاصل کر نے کی ترغیب بھی دی۔
اس موقعے پرپٹنہ یونیورسٹی کے دیگر اساتذہ اور ریسرچ اسکالرپروفیسر مسعود کاظمی،ڈاکٹر توقیر عالم،ڈاکٹر زرنگار یاسمین،ڈاکٹر مسرت جہاں،محمد منہاج الدین، محمد اسلم ،نعمت شمع اورعندلیب عمر غیرہ کے علاوہ طلبہ و طالبات نے مرحوم کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت میں حصہ لیا۔