تحریر : محمد آصف ا قبال، نئی دہلی
انسانوں کے درمیان کسی بھی موضوع پر اختلاف کا یا پایا جانا ایک فطری عمل ہے۔یہ عمل ناپسندیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس عمل کے نتیجہ میں کسی ایک کودوسرے کی تذ لیل کرنی چاہیے۔قابل غور بات یہ ہے کہ یہ اختلاف کیوں پایا جاتا ہے؟اس کا آسان جواب تو یہی ہونا چاہیے کہ چونکہ ہر شخص کی اٹھان یکساں حالات میں نہیں ہوتی لہذا اس کے غور وفکر اور عمل میں بھی یکسانیت ممکن نہیں ہے۔اور یہی وہ بنیاد ی نکتہ ہے جس کی بنا پر دو اشخاص و گروہوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ان اختلافات کی ایک اور بھی وجہ ہے اور وہ یہ کہ انسان فی نفسہ اور بحیثیت گروہ عمل کے نتیجہ میں مثبت و منفی توقعات رکھتا ہے۔ یعنی ایک کام جو انجام دیا گیا یا جس کا وہ ارادہ رکھتا ہے،
اُس کے بدلے اس کو کچھ نہ کچھ نتیجہ درکار ہے۔یہ نتیجہ فائدہ پر منحصر ہے اور فائدہ بھی وہ جو اعلیٰ درجہ کا ہو۔یعنی یہ وہ دو بنیادی باتیں ہیں جن کی بنا پر اختلافات رونما ہوتے ہیں۔لیکن اس موقع پر دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ فرد یا گروہ کی اٹھان کن بنیادوں پر ہوئی ہے تو وہیں یہ بھی کہ عمل کے نتیجہ میں حاصل کیا جانے والا اعلیٰ درجہ کا فائدہ کیا ہے؟جس کے حصول میں وہ سرکرداں ہے۔نتیجہ کے اعتبار سے یہ دونوں ہی باتیں مخفی رہیںایسا نہیں ہے۔یہ جگ ظاہر ہوتی ہیں اور معمولی سمجھ رکھنے والا ایک معتدل مزاج ،غیر جانب دار شخص آسانی سے مشاہدہ کی روشنی میں فیصلہ کر سکتا ہے۔لیکن دشواری وہاں ہوتی ہے جبکہ فرد کا مزاج ہی متشدد ہو یا وہ جانب دار ہو۔ایسی صورت میں کسی بھی فکر و نظراور عمل کو سمجھانہیں جاسکتا۔
آج کل وطن عزیز میں یہ خبر خوب گردش میں ہے کہ راجستھان کی اُدے پور پولیس نے دو مولانااور ان کے ساتھ پچاس دیگر لوگوں کو حراست میں اس بنا پر لیا کہ ان کے خلاف قبر سے لاش نکل وانے کا الزام ہے۔جس شخص کی لاش نکالی گئی ہے وہ مسلکی اعتبار سے وہابی تھا اسے بریلویوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا تھا۔بعدمیں اس کی لاش کو مدھیہ پردیش میں اس کے آبائی وطن ،مندسورمیں لے جاکر دفنایا گیا۔بتایا گیا ہے کہ ٨٨سالہ محمد یوسف طویل عرصہ سے اُدے پور میں رہ رہے تھے،انتقال ہونے پر ان کی لاش کو نزدیکی قبرستان میں دفنا دیا گیا تھا۔یہ قبرستان بریلیوں کاقبرستان کے نام سے مشہور ہے۔تدفین کے ایک گھنٹے بعد ہی میت کو صرف اس بنا پر قبر سے نکالا گیا کہ کچھ بریلوی حضرات کو اس پر اعتراض تھا ۔پس یہ اعتراض ہی اس بدترین فیصلہ کی وجہ بن گئی ۔
خبر کی روشنی میں جوکچھ بھی ہوا ،واقعہ کو درج بالا دونکات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کیجئے۔مسلکی بنیادوں پر کی جانے والی شکایت اور پھر مخصوص عمل،کے پس پشت کو ن سی فکر کارفرما تھی یعنی اِن لوگوںکی اٹھان کن بنیادوں پر ہوئی ہے ؟ساتھ ہی عمل کے نتیجہ میں دنیاوی یا اخروی حیثیت سے انہیں کیا فائدہ حاصل ہوا؟سوائے اس کے کہ نہ صرف مخصوص افرادبلکہ پوری امت رسواہوئی۔ساتھ ہی عام انسانوںتک یہ پیغام بھی پہنچا کہ مسلمان خود اندرونی انتشار و افتراق میںحددرجہ مبتلا ہیں۔لیکن ایک لمحہ کے لیے ٹھہرئیے ! اور غور فرمائیے کہ جس دوگز زمین سے ایک مردہ جسم کو قبر کھود کر نکالا گیا اور “اپنی زمین “کا دعویٰ کیا گیا،کیا یہ زمین اُن کی ہے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا؟نہیں ایسا نہیں ہے۔زمین و آسمان اور اس کے درمیان ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر مشرک ومتکبراور تمام منافقین اُس رب کریم کی فیاضیوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں،جس نے اُنہیں ایک وقت خاص تک مہلت عطا کی ہے۔نہیں تو عین ممکن تھا کہ جس طرح چند شکایات و عرض داشت کی بنا پر ایک مردہ جسم کو دوگز زمین سے نکال باہر پھینکا گیا،اسی طرح تمام منکرین ،مشرکین ،متکبرین اور منافقین ایک لمحہ بھی مہلت نہ پاتے اور انہیں بھی اسی زمین پر نست و نابود کر دیا جاتا۔لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ انسانوںکو مہلت دی ہے لہذا اس مہلت کے ساتھ آگاہ بھی کیا ہے،کہ :”آسمانوں ا ور زمین میں جو کچھ ہے ، سب اللہ کا ہے۔ تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو خواہ چھپائو اللہ بہر حال ان کا حساب تم سے لے لے گا۔ “(البقرہ:٢٨٤)۔اس صورت میں گرچہ دیگر اہل باطل یا منکر متوجہ نہ ہوں لیکن اُن افراد کو لازماً متوجہ ہونا چاہیے،جو یہ اظہار کرتے ہیں کہ ہم صرف اور صرف ایک خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔اوراگروہ متوجہ نہیں ہوتے ،تو پھر انہیں سنبھل کر رہنا چاہیے کیونکہ نہیں معلوم کب اللہ کے عذاب میں وہ مبتلا ہوجائیں اس کے باوجود کہ وہ اپنی زبان سے یہی ورد کرتے رہیں کہ وہ ایک اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات و تعلیمات سے حد درجہ محبت رکھتے ہیں۔
آج امت مسلمہ جن حالات سے دوچار ہے اس میں سب سے بڑا چیلنج اگر کوئی ہے تو وہ اندرونی اختلافات ہی ہیں۔یہ اختلافات اگر اللہ کی عبادات کو ادا کیے جانے کی حد تک ہوں تو کچھ حرج نہیں۔لیکن اگر یہ اختلافات مسلک سے اوپر اٹھ کر فرقوں کی شکل اختیار کر لیں اور یہ فرقے امت کو اندرونی طور پر کمزور سے کمزور تر کیئے جا ئیں تو پھر یہ حد درجہ تشویشناک صورتحال ہوگی۔اسلامی تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد سے آج تک یہ امت مختلف گرہوںمیں تقسیم رہی ہے۔جس کا راست فائدہ اہل باطل اٹھاتے آئیں ہیں۔لہذا یہ توقع جو عموماً کی جاتی ہے کہ امت مسلکی اختلافات کا خاتمہ کر متحد ہو جائے،ناممکن ہے اور شاید اس کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں۔اسی پس منظر میں وطن عزیز کی موجودہ صورتحال ہو ، برصغیر ہند و پاک ہو، عالم عرب کا موجودہ منظر نامہ ہو یا یورپی ،افریقی اور امریکی ممالک ہوں۔جس سطح پر بھی نظر ڈالی جائے امت انتشار میں مبتلا ہی نظر آتی ہے۔نیز ہر مقام پر اہل باطل یا امت سے بغض رکھنے والے موجودہ انتشار سے فائدہ حاصل کرنے کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ منظم و منصوبہ بند سعی و جہد میں بھی مصروف ہیں۔نتیجہ میں اندرونی انتشارو منظم بیرونی کوششوں کا حاصل یہ ہے کہ اہل باطل یا بغض رکھنے والے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔اس صورت میں دیکھنا یہ چاہیے کہ امت کے ایک اہم ترین فرد کی حیثیت سے ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ساتھ ہی یہ بھی کہ ہم اس اہم ترین ذمہ داری کو ادا کرنے کی کیا کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں؟لیکن اگر ان دوسوالات کے جواب دینے سے ہم قاصر ہوں تو پھر چاہے ہم کتنے ہی امت کی موجودہ صورتحال سے افسردہ ومتفکر نظر آئیں،اس تفکر اور افسردگی کا کچھ حاصل نہیں۔
ملک کی موجودہ صورتحال کے پس منظر میں بھکتی تحریک کی بڑی اہمیت ہے۔آپ جانتے ہیں کہ بھگتی تحریک کی ابتدا بارہویں صدی میں جنوبی ہند میں ہوئی تھی۔ اس کے بانی سوامی رامانج، مادھو، آنند تیرتھ، وشنو سوامی اور باسو تھے۔بھگتی تحریک کے بانیوں نے خدا اور انسان سے محبت کی مبہم تبلیغ کی۔ کبیر، رائے داس، وھنا، سائیں، دادو اور دوسرے بھگت سماجی اصلاح کے خواہاں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ذات پات کا فرق، چھوت چھات، پوجا پاٹ اور طبقاتی اونچ نیچ پنڈتوں اور مولویوں کے ڈھونگ ہیں۔ لوگ اگر محبت کے پرستار ہوجائیں اور دکھاوے کی رسموں کو ترک کردیں تو خدا اور انسان کے درمیان سے حجابات اٹھ جائیںگے اور نفرت کی دیوار گرجائے گی۔ہندو مسلمان، برہمن اچھوت، راجا پرجا، چھوٹے بڑے سب بھائی بھائی بن جائیں گے اور سماج کے سارے درد دورہوجائیں گے۔اسی مبہم اور غیر عقلی تحریک نے اس وقت کے رائج الوقت صوفیانہ نظام کو بھی حددرجہ متاثر کیا تھا۔یہاں تک کہ بھکتی تحریک و نظریہ نے صوفیانہ نظام کو خود میں ضم کر لیایا دونوں ایک ہی سکہ کے دورخ بن گئے۔اس کے باوجود کہ اسلام اپنی صحیح شناخت کے ساتھ اس وقت بھی موجود رہا۔لیکن ایک بڑا طبقہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کوصحیح شکل میں نہ پیش کر سکا اور نہ ہی عمل پیرا رہا ۔نتیجہ میں اسلام بحیثیت مذہب اور نظام حیات مجروح ہو ا۔آج ایک بار پھر نہ صرف وطن عزیز میں بلکہ عالمی سطح پر بھی وہی کوششیں دہرائی جا رہی ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ اسلام مجروح ہوگا یا اہل اسلام یا پھر وہ حضرات جو ان کوششوں میں سرکرداں ہیں!
تحریر : محمد آصف ا قبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com