گداگری ایک لعنت تصور کی جاتی ہے جبکہ موجودہ دور میں یہ ایک پیشے کی حیثیت اختیار کر گئی ہے ۔پیشہ ور گداگر پورے ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکے ہیں آ پ کہیں پر بھی چلے جائیں، کسی بھی سڑک پر کھڑے ہوں ،اشارہ بند ہو،آپ کو کہیں نہ کہیں گداگر ضرور نظر آئیں گے۔ اگر آپ ایک کی مدد کریں تو اس کے پیچھے پیچھے کئی دوسرے گداگر چلے آتے ہیں۔ یہ تمام لوگ پیشے کی حیثیت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس طر ح ایک نوکری پیشہ شخص صبح گھر سے نکل کر اپنے دفتر میں حاضری دیتا ہے اسی طرح یہ گداگر بھی صبح گھر سے نکل کر اپنے مخصوص اڈوں کا رخ کرتے ہیں۔
لوگوں سے گداگری کروانے کے لئے مختلف منظم گروہ سرگرم عمل ہیں ۔یہ گروہ غریب بچوں کو پیسوں کا لالچ دے کر اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ چوکوں اور مختلف شاہرائوںپر کھڑے ہو کر بھیک مانگیں ۔یہ گروہ بچوں کے علاوہ عورتوں اور مردوں کی بھی مفلسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ان گروہوں میں سے اکثر افراد معاشرے کے با اثر لوگ ہوتے ہیں جن کی سر پرستی میں یہ گروہ کام کرتے ہیں اور کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ ان گروہوں کو تنقید کا نشانہ بنائیں ۔ یہ گروہ بچوں، عورتوں اور مردوں کے مختلف اعضاء توڑ کر انہیں قابل رحم بنا دیتے ہیں تاکہ لوگ متاثر ہو کر بھیک دیں ۔یہ گروہ اکثر انسانی اعضاء کی سمگلنگ میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔
غریب لوگوں کے اعضاء نکال کر جہاں انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں وہیں ان کے اعضاء کو فروخت کر کے انسانیت سوز حرکت کا ارتکاب بھی کرتے ہیں ان گداگروں میں علاقے تقسیم کر دئیے جاتے ہیں ان کا کام ہوتا ہے کہ صبح سویرے سے اپنے علاقوں میں پھیل جائیں اور شام تک اپنی آمدنی لا کر ان کے سربراہ کے ہاتھ پر رکھ دیں ۔ان منظم گروہوں کی زبردستی کے علاوہ گداگر خود بھی اس پیشے کا انتخاب کرنے پر خود کو مجبور کرتے ہیں ان کی مختلف وجوہات ہیں ۔ جن میں بے روزگاری سر فہرست ہے ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری لوگوں کو اس پیشے کو اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے ۔بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔ جن لوگوں کے پاس سفارش ہو وہ نوکری حاصل کر لیتے ہیں
جس سے معاشرے میں تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے روزگار کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور ملک کا یہ طبقہ اپنے جائز حق سے محروم ہو کر مجبور ہو جاتا ہے کہ گداگری کو پیشے کی حیثیت سے اختیار کرے ۔ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں معاشرتی ترقی کا پہیہ کبھی چل پڑتا ہے تو کبھی رک جاتا ہے وہاں نچلے طبقے کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے ایسا نچلا طبقہ جس کا کوئی خاص ذریعہ معاش نہیں ہوتا ۔وہ دیہاڑی پر کام کرتے ہیں صبح گھر سے نکلتے وقت انہیں اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ انہیں کام ملے گا کہ نہیں ایسے لوگ معاشرتی ترقی کے عروج و زوال سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔پاکستان کے موجودہ حالات میں جب معاشرتی ترقی کا پہیہ مکمل طور پر جام ہے۔
بجلی ایک جھلک دکھا کر گم ہو جاتی ہے ،صنعتیں بند ہو رہی ہے حکومتی ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں اسی صورتحال میں ملک کا مجبور طبقہ جن کے پاس ضروریات زندگی تک نہیں وہ اس بات پر مجبور ہے کہ زندگی کی گاڑی کو چلانے کیلئے گداگری کا سہارا لیں ۔اس کے علاوہ کچھ لوگ شوقیہ اختیار کرتے ہیں ۔ انہیں گداگری کے ذریعہ پیسے کمانے کا طریقہ سہل لگتا ہے ۔ایسے لوگ ان لوگوں کی حق تلفی کرتے ہیں جنہیں حقیقی طور پر مدد کی ضرورت ہوتی ہے ،جو اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے ۔بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی مفلسی کا ذکر کسی سے نہیں کرتے ۔ ایسے حالات میں ہمارا فرض ہے کہ ان لوگوں کی مدد کی جائے ۔ وہ لوگ جو جھوٹ اور غلط بیانی کر کے پیسہ اکھٹا کر لیتے ہیں
ان کی مدد کے بجائے ہمارا فرض ہے کی ہم ان لوگوں کی مدد کریں جو کہ سفید پوش ہیں ،گداگری کے پیشے کو پولیس کی مدد بھی حاصل ہوتی ہے ۔پولیس کی ذمہ داری ہے کہ ایسے پیشہ ور گداگروں کو گرفتار کرے ۔جبکہ پولیس جہاں اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کرتی ہے وہیں ان لوگوں سے بھتہ بھی وصول کرتی ہے ۔پولیس کی نگرانی میں یہ لوگ ایک منظم گروہ کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں جو معاشرے کیلئے ناسور بن جاتے ہیں ۔ اگر ہمیں معاشرے سے اس لعنت کو ختم کرنا ہے تو گداگری کو پیشے کی حیثیت دینے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے تو ضروری ہے کہ محکمہ پولیس سے بے ایمان لوگوں کا صفایا کیا جائے۔
پولیس کے کارندوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے تاکہ جو غلط حرکات میں ملوث پایا جائے اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے عبرت حاصل کرسکیں ۔اس کے علاوہ ملکی انتظامیہ کو بھی اس سمت میں مضبوط اور ٹھوس اقدام اٹھانے چاہیں ۔ حکومت کے علاوہ عام لوگوں کا بھی فرض ہے کہ برائیوں کی نشاندہی کرے اور اسے ختم کرنے کیلئے حکومت کا ساتھ دیں کیونکہ یہ ہمارا ہی ملک ہے ۔اس کے علاوہ ہم میڈیا کے ذریعے لوگوں تک شعور اور آگاہی پھیلا سکتے ہیں ۔لوگوں کو گداگری جیسی لعنت سے آگاہی دلانے کیلئے مختلف پروگرام نشر اور شائع کیے جا سکتے ہیں ۔کیونکہ یہ ہماری معاشرتی ہی نہیں بلکہ اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری بھی ہے ۔
تحریر:ایم اے تبسم (لاہور)