تحریر : پروفیسر مظہر
جدیدسکیورٹی انفراسٹرکچراور انتہائی فعال خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی کے باوجود دوعرب نژاد بھائیوں ،شریف اورسعید نے پیرس کے وسط میںواقع ”چارلی ہیبڈو”کے دفتر میں گھس کر 12 افرادکو موت کے گھاٹ اتاردیا جس سے پورے فرانس میں ہلچل مچ گئی اوریہ کہاجانے لگا کہ یہ فرانس کا نائن الیون ہے ۔فرانس میںہونے والا یہ واقعہ پہلاہے نہ آخری ،جب تک مغرب کے ابلیس ایسی خبیثانہ حرکتیں کرتے رہیںگے ،ایسے واقعات پیش آتے رہیںگے ۔چارلی ہیبڈو میگزین میںیہ گستاخانہ خاکے پہلی بار شائع نہیںہوئے بلکہ 2006,11 ,13ء میں بھی یہ خاکے شائع ہوئے لیکن فرانسیسی حکومت نے اسے آزادیٔ اظہارِ رائے کانام دے کر کوئی کارروائی نہیںکی ۔میرادین تو قانون کو ہاتھ میںلینے کی ہرگز اجازت نہیںدیتالیکن جب عالمی ضمیر بے غیرتی کا کفن لپیٹ کر بے حمیتی کی لحدمیں لیٹ رہے ،جب آزادیٔ اظہارکے نام پر 40 ممالک کے سربراہان ہاتھوںمیں ہاتھ ڈال کر مادرپدر آزادی کے علمداربن جائیں اورجب عالمِ اسلام کے حکمران بے حیائی کی ”بُکل”مار کر آنکھیں موند لے توپھر ایسے واقعات ناگزیر ہوجاتے ہیں کیونکہ نفرتوںکے نخل خون کی آبیاری سے ہی پھلتے پھولتے ہیں ۔اگر فرانسیسی حکومت ایسی آزادیٔ اظہارِرائے پہ لعنت بھیج کر”چارلی ہیبڈوکے خلاف کارروائی کرتی تونوبت یہاں تک نہ پہنچتی لیکن وہاںتو مسلمانوںسے نفرت کے اظہار کے لیے ڈیڑھ ملین لوگ سڑکوںپر نکل آئے اور چالیس ممالک کے سربراہان بھی لیکن طرفہ تماشہ یہ کہ اُن میں چند اسلامی ممالک کے سربراہان بھی شامل تھے ۔اِس یکجہتی مارچ میں ملعون جریدے کے بڑے بڑے پوسٹر نمایاںتھے جنہیں دیکھ کر مراکش کے وزیرِخارجہ نے احتجاجاََ شرکت نہ کرکے اپنے غیرت مند مسلمان ہونے کا ثبوت دیا ۔اِس سے پہلے بھی وہ مراکشی مجاہد ہی تھا جس نے ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے اُس مصور کوواصلِ جہنم کیاتھا ،جس نے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنائے اور ایک فاحشہ عورت کے برہنہ جسم پر قُرآنی آیات لکھیں۔
آج 12 افراد کے مرنے کوفرانس کا”نائن الیون” کہا جارہاہے لیکن اِن عالمی درندوں کو عراق اور افغانستان کے لاکھوںشہیدوں کا لہو کیوںیاد نہیںرہتا ، فلسطین کے مظلوموںکی آہ وبکا کیوں سنائی نہیںدیتی اور کشمیرمیں بھارتی افواج کے مظالم کیوں نظرنہیں آتے ۔اقوامِ عالم کے اِن درندوںسے سوال کیا جاسکتاہے کہ کیا آزادیٔ اظہارکا یہی مطلب ہے کہ ایسا مواد شائع کیا جائے جو دنیاکے ڈیڑھ ارب مسلمانوںکی دِل آزاری اوراشتعال کا باعث بنے ۔چلیںمان لیا کہ مغرب میں آزادیٔ اظہارکا تصور یہی ہے توپھر ”ہولوکاسٹ” اورگیس چیمبرزکو جھوٹ کا پلندہ قرار دینے والوںکواُلٹا کیوں لٹکا دیاجاتاہے ؟۔کیا صرف اِس لیے کہ اِس سے یہودیوںکی دل آزاری ہوتی ہے ؟۔یہودی توعام انسان ہیں لیکن میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو نبی آخر الزماںہیں اور ہمارے ایمان کاجزوِ لاینفک کہ ہمارا دین ہی اتنی دیرتک مکمل نہیں ہوتا جب تک آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیںکائینات کی ایک ایک چیزسے پیارے نہ ہوجائیں ۔جب حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عالم ہوتو پھر بھلا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میںگستاخی کرنے والے کو کیسے معاف کیا جاسکتاہے ۔اگر مغربی معاشرہ آزادیٔ اظہارکے نام پر چارلی ہیبڈو جیسے غلیظ میگزین کے ملعون مالکان کو نہیں روک سکتا توپھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیوانوںاور پروانوںسے یہ توقع عبث ہے کہ وہ ابلیسیت کے اِن علمبرداروں کوواصلِ جہنم نہیں کریں گے۔
عالمِ اسلام کے حکمران اگر متحد ہوکر اقوامِ متحدہ میں احتجاج کریں تو یقیناََ آزادیٔ اظہارکی حدودوقیود کا تعین کیا جاسکتاہے لیکن صدحیف کہ ہمارے حکمران منصورِ حقیقت ہیں نہ سقراط کہ سچ کی خاطر سولی پہ چڑھ جائیںیا زہرکا پیالہ پی لیں ۔اُنہیںتو ہرلمحہ عالمی درندوںکے جبڑوںمیں پھنسا اپنا اقتدار بچانے کی فکر ہوتی ہے اسی لیے وہ سچ کوبھی اُس ناجائز بچے کی مانند چھپائے رکھتے ہیں جس کے ظاہرہونے پر تہمت کاخوف ہو ۔وہ توعالمی درندوںکے قدموںمیں ہی حیاتِ جاوِدانی کا خواب دیکھتے ہیںلیکن اِس خواب کو بالآخر موت کے ہونٹوںکو بوسہ دینا ہی پڑتاہے ۔اسی حیاتِ جاوِداںکی خواہش کبوترکو بلّی کے سامنے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کرتی ہے اوروہ بلّی کا لقمۂ تر بن جاتاہے ۔لیکن ہمارے حکمران یہ ابدی حقیقت یکسر فراموش کر چکے کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اگر مسلم اُمّہ کمزور ہوتی تو ہم بھی صبر کرکے بیٹھ رہتے لیکن ربِ کردگارنے تواسے دُنیاکی ہر نعمت سے نوازاہے ۔اگر یہ متحد ہوجائیں تو دنیاکی بڑی اے بڑی طاقت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن عالمِ اسلام میںتو ویسی ہی نفسا نفسی کاعالم ہے جیسی روزِ قیامت ہوگی ۔ مغرب کوکیا الزام دیں کہ ہمارے ہاںکے سیکولر دانشور بھی آزادیٔ اظہارکے بارے میں وہی رائے رکھتے ہیںجو مغرب کی پسندیدہ ہے ۔اِن گستاخانہ خاکوںپر لکھتے ہوئے ہمارے سیکولر دانشوربہ اندازِحکیمانہ اِن کا رُخ مذہبی انتہاپسندی کی طرف موڑدیتے ہیں اور اپناپورا زور دینی جماعتوں کی نفرین پر صرف کردیتے ہیں ۔ایسے ہی ایک سیکولر دانشور لکھتے ہیں”اگر ظلم وجبرہو تو اُس کے مقابلے پر زبان کھولنا بلکہ گولی تک چلاناایک قابلِ قدر جذبہ قراردیا جاسکتاہے لیکن علمی وفکری اختلاف پر تشددکرنا جہالت اورحیوانیت کے سوا کچھ نہیں ”۔کوئی اُس ارسطوئے دوراںسے پوچھے کہ کیا گستاخانہ خاکے علمی وفکری اختلاف کے زمرے میں آتے ہیں ؟۔کیا ماںبہن کی گالی علمی وفکری اختلاف ہے ؟۔ اگرنہیں توپھر کیاایسی گستاخی پر خاموشی اختیارکرکے ہم مسلمان کہلوانے کے حقدار ٹھہرتے ہیں؟۔
عیسائیوںکے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے تو اِن گستاخانہ خاکوںکی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا ”اگرکوئی میری ماںکو گالی دے گاتو اُسے میرے مُکے کے لیے تیار رہناچاہیے ”۔لیکن کیا ہماراایمان اتناہی کمزور ہوچلا کہ ہم اپنے احتجاج کو عقل وخرد کے پیمانوںپر ناپنا شروع کردیں۔لاریب اِن گستاخانہ خاکوںسے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوںپر کچھ فرق نہیںپڑتا کہ اُن پر تورب العالمین اوراُس کے فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو عالمین کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوتو جنت کے افضل ترین مقام ”مقامِ محمودہ”کی نوید سنادی گئی اور زندگی میںہی آسمانوںکی سیر کروادی گئی اِس لیے وقت کے فرعونوں ،شدادوں ،نمرودوں اور ملعونوں کے غلیظ چھینٹوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ِ اقدس پر تو کچھ اثر نہیںپڑتا
لیکن یہ معاملہ میرے ایمان کاہے اور امتحان میرے عشق کا ۔کوئی اقوامِ مغرب کو جاکر یہ کہہ دے کہ بات جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر پہنچے گی توپھر ہماری جنوںخیزی کے سامنے کوئی بند نہیں باندھ سکے گا ۔یہ اُن دو عربی نژاد بھائیوںکا جنوںہی توتھا جس نے سکیورٹی کے مضبوط ترین جال توڑکر اُن خبیثوں کو واصلِ جہنم کیا جو متواتر میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کر رہے تھے ۔وہ شہید ہوئے لیکن اپنے عشق کی صداقتوں پر اپنے لہوسے مہرِتصدیق ثبت کرگئے ۔اسی لیے توکہتے ہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اِس جان کی کوئی بات نہیں
تحریر : پروفیسر مظہر