counter easy hit

وعدہ پورا کرنے کا وعدہ

Promise

Promise

تحریر: چودھری محمد افضل
اچھی حکومتیں اور اچھے حکمران وعدے کم اور ڈلیور زیادہ کرتے ہیں۔ بلکہ لیڈر وعدوں میں کنجوس اور منصوبوں میں فراخ دل ہوتے ہیں۔ کیونکہ عوام کو حکمرانوں کے جھوٹے وعدے مسائل سے زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ بد قسمتی سے ملک و قوم کا مستقبل بیرونی معاہدوں اور سیاسی وعدوں تک محدود رہا ہے اللہ کریم کا حکم ہے کہ ہم سے ہمارے وعدوں کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ انتخابات میں سیاست دان ایسے ایسے وعدے کرتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ کہ معجزہ کیسے رونما ہو گا جس کا موصوف وعدہ فرما رہے ہیں۔ جذباتی آدمی جب خوش ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ اپنی استطاعت سے بڑا وعدہ کرتا ہے اور مسکین فقیر آدمی جب کسی کی مہربانی پرخوش ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ احسان کرنے والے کی اوقات اور مہربانی سے بڑی دعا دیتا ہے
وزیر اعظم نواز شریف نے چنیوٹ کے علاقے رجوعہ سے اربوں ڈالر کے سونے ، چاندی، تانبا، اور لوہے کے ذخائر دریافت ہونے پر پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتے ہوئے کچھ وعدے کئے، کچھ انکشافات فرمائے اور کچھ مجبوریاں بھی بیان کیں۔ ان وعدوں کے مطابق رجوعہ کے ذخائر سے، غربت، بیروزگاری اور لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ کشکول بھی ٹوٹ جائے گا بلکہ 2018ء تک وطن عزیز پاکستان سے تمام مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ میاں صاحب کے ان وعدوں میں سے تین وعدے غربت و بے روزگاری کا خاتمہ اور کشکول کا توڑنا ،نا صرف پرانے بلکہ پھٹے پرانے ہیں ، جب قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ بلند کیا گیا تھا ۔تو یہ تینوں اس نعرہ کی بنیاد بنے۔ پھر بیرون ملک پاکستانیوں نے میاں صاحب کی اپیل پر بنکوں کی تجوریوں کو بھر دیا ، کشکول ٹوٹا نہ غربت و بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے ، بلکہ میاں صاحب خود چلے گئے۔

فرینڈلی اپوزیشن ہونے کے باوجود 2008ء سے 2013ء تک میاں برادران نے مائک توڑ تقریریں کر کے لوڈ شیڈنگ پر خوب سیاست کی۔ الیکشن مہم 2013ء زوروں پر تھی لاہور کے ایک بڑے جلسے میں بڑے میاں صاحب نے سالانہ ایک لاکھ نوجوانوں کو روزگار دینے اور پاکستان سے ایک سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا۔ تو چھوٹے میاں صاحب نے جوش خطابت میں آکر کہا کہ اگر ایک سال میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہو تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ درست فرمایا بعد از الیکشن وہ شہباز شریف کی بجائے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہو گئے۔ ان کے حساب سے ایک سال معلوم نہیں کب ہو گا ؟ کیونکہ سیانے لوگ کہا کرتے ہیںکہ ” زور والے دا ستیہ ویاں سو” البتہ عوام کے مطابق اٹھارہ ماہ بیت چکے ہیں، حیرت اس امر پر ہے کہ سردیوں میں بجلی کی کھپت بہت کم ہو جاتی ہے اس کے باوجود عوام کو دس سے بارہ گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نندی پور پراجیکٹ 87ارب روپے کے اخراجات کے باوجود ایک میگا واٹ بجلی پیدا نہیں کر رہا ۔

مقام شکر ہے کہ ناقدین کو بھی ستاسی ارب روپے کا پراجیکٹ یاد ہے۔ میاں برادران نے اپنے وعدے کے مطابق تقریباً ایک سال کے اندر 31مئی 2014کو نندی پور پاور پراجیکٹ کا افتتاح کیا تو اس خوشی کے موقع پر چوہدری عابد شیر علی نے دھمال ڈالی اورمیاںشہباز شریف نے بڑی زبردست تقریر کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی عظیم قیادت میں ملک سے اندھیرے چھٹ جائیں گے روشنیاں واپس آجائیں گیں اور معیشت بحال ہو جائے گی۔ آخر میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے نندی پور پاور پراجیکٹ کے ڈائیریکٹر کیپٹن (ر) محمود کی جان توڑ محنت کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے سفارش کی کہ وزیر اعظم انہیں تمغہ امتیازدیں ۔وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی کاوشوں کو سراہااور افتتاح کر کے مخالفین کے منہ بند کر دئے۔اب اگر نندی پور سے بجلی پیدا نہیں ہو رہی تو اس میںمیاں برادران کا کیا قصور ہے ، افتتاح میں تو تاخیر نہیں ہوئی، بلکہ انہوں نے تو پراجیکٹ ڈائریکٹر کو ابھی تک تمغہ امتیاز سے بھی نہیںنوازا۔ درست تسلیم ہے کہ ملک و قوم کے اربوں روپے اس پراجیکٹ کی نذر ہو گئے ،کوئی بات نہیں وعدوں کی تکمیل کے لئے ایک اور وعدہ کر لیا ہے کہ نہ صرف تین سال میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی بلکہ 2018ء تک تمام مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا۔

ماضی قریب میں تھر کول کے بارے میں بھی قوم کو نوید سنائی گئی کہ پاکستان میں دنیا کے چوتھے بڑے کوئلہ کے ذخائر کی دریافت کے بعد ملک و توانائی بحران سے نجات مل جائے گی۔ تھر میں سستی بجلی کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا۔ جس کی سربراہی ڈاکٹر ثمر مبارک کر رہے ہیں جنہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ کوئلہ کو زمین سے نکالے بغیردس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پھر اچانک ڈاکٹر ثمر مبارک تھر پراجیکٹ چھوڑ کر پنجاب میں لوہے کی تلاش میںنکلے تو چنیوٹ رجوعہ میں سونے ، چاندی اور تانبے کے ذخائر مل گئے۔ جس کی تفصیلاً رپورٹ دس ماہ بعد آنی ہے البتہ قوم کو مبارک باد دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔ اب بات کرتے ہیں میاں صاحب کے انکشافات کی جوانہوں نے رجوعہ خطاب میں کئے، وزارت اعظمیٰ کا منصب پھولوں کی سیج نہیں،دس سال قبل معاملات کو سنجیدہ لیا ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے، نیت صاف نہ ہوتی تو یہ ذخائر دریافت نہ ہوتے ، پٹرول سستا کرنے سے عوام کو فائدہ اور حکومت کو نقصان ہو رہا ہے، پوری تقریر میں صرف چار انکشاف تھے۔ مخالفین وہ بھی ہضم نہ کر پائے۔ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم بننا اور وہ بھی تیسری بار بڑا مشکل کام ہے۔ البتہ میاں صاحب کو استعفیٰ دے کر عمران کی ضد کو پورا اور اپنی مشکل کو آسان کر لینا چاہئے تھا۔

مزید کہتے ہیں کہ دس سال قبل حالات کو سنجیدہ کون لیتا ، آپ تو سعودی عرب تھے نیت پر بھی شک کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ لگتا ہے کہ اب نیت صاف ہوئی ہے۔ نوے کی دہائی میں بد نیتی شامل حال تھی جس کی وجہ سے ایک بار وزیر اعظم ہائوس سے اور دوسری بار ملک سے باہر جانا پڑا۔ 34روپے فی لیٹر کمی کا ذکر کرنے کی بجائے پٹرولیم مصنوعات پر لگائے گئے بائیس فیصد سیلز ٹیکس پر باتیں بنانے والے کہہ رہے ہیں کہ صارفین کو ماہانہ 5ارب روپے کے ریلیف سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اور حکومت سے الٹا سوال کر رہے ہیںکہ تیل کی قیمتوںمیں اضافے کے وقت اضافی سیلز ٹیکس اور محصولات حاصل ہونے کی صورت میں حکومت نے اس کا فائدہ صارفین کو منتقل نہیں کیا تو اب قیمتوں میں کمی کے وقت اسے صارفین سے کیوں وصول کیا جا رہا ہے۔” تھوڑا نتظار کر لیں مارچ میں پٹرول پھر مہنگا ہو جائے گا”۔ دوسرا سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں 34روپے فی لیٹر کمی کے باوجود عوام تک اس کمی کے ثمرات منتقل نہیں ہو سکے۔

دیکھیں جی پٹرول مافیا ہویا ٹرانسپورٹرز مافیا ہو یہ تگڑے لوگ ہوتے ہیں حکومت ان سے ”ٹکر” لے کر اپنی ساکھ خراب نہیں کرنا چاہتی۔ یہ لوگ ہڑتالیں کر کے حکومت کو بلا وجہ پریشان کرتے ہیں۔ میاں صاحب نے بڑے کھلے الفاظ میں اعتراف کر لیا ہے کہ وسائل ہوتے تو تمام مسائل تین سال میں حل کر دیتے ، بجلی کے کارخانے لگانے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک میاں صاحب کی یہ مجبوریاں ہیںاور کسی کی مجبوری کو انجوائے کرنا یا فائدہ اٹھانا بہت بری بات ہے مگر تنقید کرنے والے اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہہ رہیں کہ حکومت صرف مسائل پیدا کر رہی ہے حالانکہ عوام تو وسائل پیدا کرنے کی توقع کر رہے تھے۔ اگر بجلی کے کارخانے لگانے کے لئے پیسے نہیں بچے تو کوئی بات نہیں ، آپ ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کے کارخانے اندون و بیرون ملک لگا چکے ہیں، بجلی کے کارخانے آئندہ حکومت کے لئے چھوڑ دئیے جائیں۔ بد قسمتی سے حکومت نے وعدے زیادہ کر لئے تھے ، حکومت یہ وعدے پورے نہیں کر سکی لیکن اس کے باوجود ہمیں حکومت پر حسن ظن رکھنا چاہئے تاکہ جمہوریت بچ سکے۔ حکمرانوں سے ہماری درخواست ہے کہ مزید وعدے نہ کریں کیونکہ عوام کو جھوٹے وعدے مسائل سے زیادہ تکلیف دے رہے ہیں۔ بلا شبہ کامیاب سیاستدان وہی ہے جو وعدے کرنے میں سخی ہو ، ایک سیاست دان سے کسی نے پوچھا آپ نے اتنے وعدے کئے پورا کوئی وعدہ نہیں کیا، اب کیا کرو گے۔ وہ بولا میں آیندہ الیکشن مہم میں وعدے پورے کرنے کا ”وعدہ ”کروں گااور کامیاب ہو جائوں گا۔

Chaudhry Mohammad Afzal

Chaudhry Mohammad Afzal

تحریر: چودھری محمد افضل