تحریر : شاہ بانو میر
کسی عالم دین کی بیگم کا انتقال ہوگیا وہ بہت مصروف انسان تھے . پوری دنیا سے تعزیت کیلئے لوگوں کی آمد نے ان کی تصنیف و تالیف کا کام روک دیا تین دن دنیا بھر سے جنازے میں شامل ہونے والوں کے ساتھ تعزیت وصول کرتے گزر گئے اس کے بعد جب ایک لمبا سلسلہ ان لوگوں کے ناموں کا ان کے ہاتھ میں تھمایا گیا کہ جو لوگ اُس وقت بحالت مجبوری یا کسی اہم کاروباری میٹنگ یا گھریلو مصروفیت کی وجہ سے جنازے میں شریک نہیں ہو سکے تھے وہ اب اگلے ہفتے قدم بوسی کی اجازت چاہتے ہیں تا کہ خود آکر اس وقت تعزیت کا فرض نبھا سکیں بہت تاریخی الفاظ کہے عالم صاحب نےکہے کہ سب کو پیغام مل جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے گھر میں اہلیہ کی وفات ہوئی وہ وقت بہت مشکل تھا جب عمر بھر کا ساتھ ٹوٹ گیا جزباتی طور پے بھی ذہنی طور پے بھی بہت افسردگی تھی حالانکہ وہ اللہ کی امانت تھی مگر ایک طویل وقت اچھی رفاقت میں گزرا ہو توانسان خلا محسوس کرتا ہے – اہلیہ کی وفات کے بعد وہ احباب جو اس موقعہ پرکاروبار گھریلو امور چھوڑ کر میرے غم میں شریک ہوئے۔
ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں وہ وقت پر مجھے حوصلہ دینے آئے اور ان کی معیت میں میں بہت سنبھل بھی گیا – مگر وہ لوگ جو موت کو یا کسی بھی واقعہ کو اپنی ذات سے آگے ترجیح نہیں دیتے اور اپنے کام نمٹا کر اپنی مصروفیات کو مکمل کر کے پھر جب وقت ملا تو وہ آنا چاہ رہے تو ان سب احباب سے گزارش ہے کہ وقت اور موقعہ پر اگر آپ نہیں آئے خواہ کسی کی خوشی ہے یا افسوس تو بعد میں آنا یا نہ آنا بالکل بیکار ہے۔
کسی کو کوئی مجبوری تھی تو الگ بات ہے مگر وہ لوگ جو فرصت میں آنا چاہتے ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کی ” پرکھ ” آپکی ایسے وقت میں ہوتی ہے؟ آپ کسی کی خوشی میں وقت پر کیسے شریک ہوتے ہیں؟ اور کسی کے دکھ میں کس قدر اس کی تکلیف کو بھانپ کر عجلت سے اس کے پاس جاتے ہیں -کوشش کریں زندگی میں ہر کسی کے غم اور خوشی میں بروقت پہنچیں جو آپ کے جانے کی قدر بڑہائے وقت گزر جانے کے بعد معاملہ ان لوگوں جیسا ہو جاتا جو غزوہ تبوک پر بہانوں سے رک گئے۔
کامیابی کے بعد آپً کو جھوٹی تاویلیں دینے لگے .جنہیں اللہ پاک نے مسترد کر دیا پرکھ ہماری کیسی ہے؟ ہم وقت پر کسی کی خوشی اور غم میں اس کے پاس ہوتے ہیں ؟ اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں یا فرصت ملنے پر جاتے جس کی غمزدہ یا خوش ہوئے انسان کو کوئی قدر یا اہمیت نہیں ہوتی۔
آئیے اپنی پرکھ اچھی بنائیں مصنوعی مصروفیات کی آڑ لے کر منافقین کی طرح فاصلے رکھ کرساتھ چلنے کی بجائے صحابہ کرام کی طرح باہم مضبوطی سے مل کرہر مشکل وقت ہر خوشی میں سب سے پہلے موجود رہیں . جہاں کہیں ہم ہیں وہاں وہاں گرمجوش انداز کے ساتھ اپنے اچھے انسان ہونے کی”” پرکھ”” دیں .آیئے خود کو پرکھتے ہیں کہ ہم کتنے فیصد پرکھ کے اعلیٍ مقام پر پورے اترتے ہیں؟۔
تحریر : شاہ بانو میر