ایتھنز (قاری خالد محمود سے) سیدہ خدیجہ اور حضرت ابو طالب جیسی پناہ گاہیںمنہدم ہو گئی تھیں۔ دوسری طرف قریش مکہ بھی بے خوفُ خطر ظلم و ستم کرنے لگے۔اب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مکہ میں رہنا بہت زیادہ دشوار ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نئی پناہ گاہ کی تلاش کیلئے وادی طائف کا سفر اختیار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سفر طائف بھی ظاہری طور پر ناکام ہی رہا۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعوت و تبلیغ ابھی کامیابی اور ظلم و ستم کے درمیانی مرحلے سے گزر رہی تھی ان مشکل ترین حالات میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیلئے مکہ میں دعوت و تبلیغ کا کام کرنا ناممکن ہو گیا۔ان سخت ترین اور دُشوار گزار حالات میں معراج کا واقعہ پیش آیا،جس میں اﷲ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنی نشانیاں دکھا کر اپنی حکمرانی کے نظام کا مشاہدہ کروایا اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر فطرت اور کائنات کے وہ راز ظاہر فرمائے جو آج تک کسی دوسرے نبی پر ظاہر نہیں فرمائے تھے۔
ان خیالات کا اظہار اسلامک فورم گریس کے صدر متوسط علی شاھدنے 15مئی کو مسلم مسجد میں نمازِ جمعہ پر معراج النبی کے خصوصی موقعہ پر لوگوں کی کثیر تعداد سے خطاب کرتے ہوئے کیا آپ کا مذید کہنا تھا کہ معراج کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یقین میں استقامت اورڈھارس بندھانا بھی تھا،کیونکہ ظاہری سہاروں کا چھن جانا،طائف والوں کے ظلم و ستم اور مکہ کی وادی میں ابولہب و ابو جہل کے ظلم کی پر چھائیاں طاری تھیں۔ان پرچھائیوں کو ختم کرنے کیلئے اور اپنی قدرت کے مشاہدات کروانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کروائی گئی۔
نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھ سے پہلے انبیاء کو دین کی خاطر جتنی بھی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں اُن سب کی تکلیفیں ایک طرف اور میری تکلیفیں ایک طرف رکھ دیں توپھر بھی میری تکلیفیں بڑھ جائیں گئی، نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کی خاطر بہت زیادہ تکلیفیں اُٹھائی ہیں ان تکلیفوں کے باوجود پورے جزیرةالعرب میں اسلام کو عملی طور پر نافذ کیا ہے۔