تحریر : مولوی محمد صدیق مدنی
انسانوں کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انھیں نیکی اور بدی میں تمیز سکھائی جائے ۔ ان میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں انھیں دور کر کے نیکی کا رستہ دکھایا جائے ۔ ان کی اخلاقی حالت کو بہتر بنا کر انھیں پاکیزہ کردار کا مالک بنایا جائے ۔ اس مقصد کے لئے وعظ و نصیحت کے ساتھ لازم ہے کہ ان کے سامنے بلند اخلاق اور پاکیزی کردار کا ایسا کامل نمونہ پیش کیا جائے جس کی پیروی کر کے وہ اپنی زندگی کو سنوارسکیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہ ۖ کی زندگی تمھارے لئے بہتر ین نمونہ ہے۔ حضور ۖ کے نقش قدم پر چل کر ہی انسان بلند اخلاق کا مالک بن سکتا ہے۔ حضور ۖ کے اخلاق اس قدر بلند تھے کہ دوست تو دوست بد تر دشمن بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ جانی دشمنوں کو معاف کردینا ، غلاموں اور کنیزوں سے اچھا سلوک کرنا ، بیماروں کی عیادت کرنا ، کمزوروں اور ضعیفوں کو سہارا دینا اور اپنے پرائے سبھی کے ساتھ شفقت اور نرمی کا برتاؤکرنے کی بے شمار مثالیں حضور اکرم ۖ کی زندگی میں ملتی ہیں۔ایک دفعہ آپ ۖ کہیں جا رہے تھے ۔ راستے میں آ پ ۖ نے ایک کنیز کو دیکھا جو رو رہی تھی۔ آپ ۖ نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ بولی ” میری مالکہ نے مجھے سودا لینے بھیجا
لیکن مجھ سے رقم کھو گئی ہے اس لیے میں پریشان ہوں ” حضور ۖ نے اس کو رقم دے دی اور آگے روانہ ہو گئے ۔ تھوڑی دور جا کر مڑ کر دیکھا تو وہ کنیز بدستور رو رہی تھی۔ آپ ۖ نے اسے پاس بلاکر پوچھا کہ اب کیوں رو رہی ہو ؟ اس نے کہا مجھے بہت دیر ہو گئی ہے اتنی دیر سے گھر جاؤں گی تو گھر والے سزا دیں گے ۔ حضور ۖ کو بہت ترس آیا آپ ۖ اس کے ساتھ اس کے گھر تشریف لے گئے ۔ گھر والوں کو سلام کیا اور فرمایا اس لڑکی کو سزا کا ڈر تھا اس لیے میں اس کے ساتھ آیا ہوں گھر والے حضور ۖ کی تشریف اوری سے اتنے خوش ہوئے کہ انھوں نے اس کنیزکو آزاد کر دیا۔ حضرت زید حضور ۖ کے چہیتے غلام تھے ۔ اس زمانے میں غلاموں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا لیکن نبی کریم ۖ زید کو اولاد کی طرح رکھتے تھے ۔ کچھ مدت بعد جب زید کے والد اور چچا کو پتا چلا کہ ان کا بیٹا مکہ میں ہے تو وہ اسے واپس لے جانے کے لیے مکے آئے اور انھوں نے حضور ۖ سے درخواست کی آپ ۖ ہمارا بیٹا ہمیں دے دیں تو آپ جو معاوضہ مانگیں گے ہم دینے کو تیا ر ہیں ۔ حضور ۖ نے ا ن کو بات کو غور اور توجہ سے سنا اور فرمایا میں لڑکے کو بلاتا ہوں اگر وہ آپ کے ساتھ جانے پر آمادہ ہو ا تو کسی معاوضے کے بغیر آپ اسے لے جا سکتے ہیں ۔ زید کو بلایا گیا اور ان کو ساری بات بتا کر ان کی مرضی پوچھی گئی تو زید نے فوراََ جواب دیا میں حضور ۖ کو چھوڑ کر کسی کے پاس جانے کو تیا ر نہیں ہوں زید کے والد اور چچا نے حیران ہو کر پوچھا کہ تم غلامی کو آزادی پر ترجیح دے رہے ہو۔
زید نے جواب دیا ”میں حضور ۖ کے حسن سلوک سے اس قدر متا ثر ہو ا ہوں کہ اب میں کسی دوسرے کو حضور ۖ پر ترجیح نہیں دے سکتا ” یہ جوا ب سن کر زید کے والد اور چچا انھیں حضور ۖ کے پاس بخوشی چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ اپنوں سے حسن سلوک کی مثالیںتو بہت ملتی ہیں لیکن جانی دشمنوں کے ساتھ عفو و در گزر اور حسن سلوک کی جو مثال نبی اکرم ۖ نے فتح مکہ کے موقع پر قائم فرمائی اور فاتحین کی پوری تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔حضور ۖ کی قیادت میں اسلامی لشکر ابھی مکے میں داخل نہیں ہوا تھا کہ ایک صحابی نے ابو سفیان کو پکڑکر حضور ۖ کے پاس لے آئے ۔ یہ ابوسفیا ن وہی تھے جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ کی تھی اور حضور ۖ کے بد ترین دشمن رہے تھے ۔ حضرت عمر نے ابوسفیان کو دیکھ کر حضور ۖ سے اجازت طلب کی کہ اس دشمن اسلام کا سر اڑا دے لیکن رحمت عالم ۖ نے انھیں سختی سے منع فرمایا ۔ ابوسفیا ن نے معافی طلب کی تو حضور ۖ نے نا صرف ان کے سارے جرم معاف فرما دیے بلکہ یہ اعلان بھی فرما دیاکہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اسے بھی معاف کر دیا جائے گا ۔حضور ۖ کا حسن سلوک دیکھ کر ابوسفیان مسلمان ہو گئے۔
نبی اکرم ۖ فاتح کی حیثیت سے مکے میں داخل ہو ئے تو کافر ڈر رہے تھے کہ اب حضور ۖ ان سے بدلہ لیں گے ۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے حضور ۖ کی راہ میں کانٹے بچھا ئے ، وہ بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی ، وہ بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں اور بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا ۔ وہ بھی تھے جنھوںنے حضور ۖ کو قتل کرنے کے ارادے سے ننگی تلواریں لیکر حضور ۖ کے گھر کا محاصرہ کیے رکھا تھا ۔ میں ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی جس نے جنگ اُ حد میں حضور ۖ کے پیارے چچا حضرت حمزہ کا کلیجا چبایاتھاان میں ہندہ کا وہ غلام بھی تھا جس نے دھوکے سے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا۔ آج ہر ایک کو اپنے اپنے جرائم یاد آ رہے تھے ۔ حضور ۖ اگر ان کے جرائم کی سز ا انھیں دیتے تو دنیا کے کسی قانون یا اخلاق کے خلاف نہ ہوتا لیکن حضور ۖ رحمتہ اللعالمین تھے۔ آپ ۖ نے بے مثال عفو و درگز سے کام لیتے ہوئے ان سارے دشمنوں کو معاف کر دیااور فرمایا ” آج تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائیگا ۔ جاؤ تم سب آزاد ہو ” ۔یہ سننا تھا کہ سب لوگوں کے دل پگل گئے اور انھوں نے اس وقت اسلام قبول کر لیا ۔ نبی کرم ۖ کی رحمت ساری مخلوق پر سایہ فگن ہے۔ اس رحمت عام سے صرف انسان ہی نہیں حیوان بھی فیض پاتے ہیں۔
عرب کے لوگ جانوروں پر طرح طرح سے ظلم کرتے تھے ۔ جانوروں کو بھوکا پیاسا رکھتے تھے ۔ ان کی طاقت سے بڑھ کر کام لیتے تھے ۔ زندہ جانوروں کے بدن سے گوشت کا لوتھڑا کاٹ کر پکا لیتے تھے ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جانوروں کو باندھ کر ان پر نشانہ بازی کی مشک کیا کرتے تھے ۔ یہ ظالمانہ کام ان کے مشاغل میں تھے ۔ نبی کریم ۖ نے ان تمام رسموںکو سختی سے بند کر دیا اور فرمایا کہ جانوروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ۔ ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور ان کے چارے پانی کا خیال رکھو ۔ایک مرتبہ ایک صحابی نے کبوتری کے گھونسلے سے ا س کے ننھے منے بچے اٹھا لیے کبوتری اس صحابی کے سر پر منڈلا رہی تھی ۔ حضور ۖ نے دیکھا تو آپ ۖ کو بہت دکھ ہوا۔ آپ ۖ نے صحابی کو حکم دیاکہ وہ کبوتری کے بچے کو واپس گھونسلے میں رکھ دے ۔ صحابی نے حکم کی تعمیل کی۔
بنی کریم ۖ کی رحمت اور عفو و درگزر کی چند مثالیں ہیں ۔ حضور ۖ کی سیرت کی کتابوں میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ حضور ۖ کے طریقے پر چلیں اور مخلوق خدا کے ساتھ نرمی ،محبت اور حسن سلوک کا رویہ اپنائیں ۔ اس میں ہماری دنیا اور آخرت کی بہتری ہے۔ لیکن آج کل ہم مسلمان کم بلکہ فرقہ پرست زیادہ کہلانا پسند کرتے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم سنت نبوی ۖ پر کس حد تک عمل کرتے ہیں یا صرف باتیں ہی کرتے ہیں ۔ ہر ایک مسلمان نے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہے اور خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس حد تک حضور ۖ کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔
تحریر : مولوی محمد صدیق مدنی