تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
مسجد نبوی عاشقانِ رسول سے کچھا کھچ بھری ہو ئی تھی دنیا بھر سے آئے ہو ئے شمع رسا لت ۖ کے پروانے اپنے اپنے انداز سے آقا ئے دو جہاں ۖ سے اپنے والہا نہ عشق کا اظہار کر رہے تھے سرتاج الانبیا ء ۖ کے پروانوں کا عشق دیکھ کر مجھے محبوب خدا ۖ کی وہ حدیث پا ک یا د آگئی رسول اقدس ۖ فرماتے ہیں مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے اس وقت تک کو ئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے والدین اور اُس کی اولاد سے زیادہ عزیز نہ ہو جائوں قرآن مجید میں ارشاد با ری تعالی ہے ترجمہ ۔ اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہو جا ئو اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہا رے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے تم فرما دو کہ حکم مانو اللہ اور رسول ۖ کا پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو خوش نہیںپاتے کا فر ( کنز الایمان )اِس آیت سے معلوم ہو ا کہ رب ذولجلال سے دوستی اور تعلق قائم کر نے کے لیے سرور دو جہاں ۖ کی اتباع ضروری ہے۔
یعنی اگر کو ئی اللہ کو محبوب بنا نا چاہتا ہے تو اُس کے محبوب رسول ۖ کی پیروی کر ے تو اللہ تعالی اُس کو محبوب بنا لے گا اِس کے برعکس جو لوگ رسول کریم ۖ کی اتباع نہیں کر تے اور آپ ۖ کی سنت کو نہیں اپنا تے تو اُن کا دعوی محبت جھوٹا ہے کیونکہ حدیث مبا رکہ میں سے جو کو ئی شخص ایسا عمل کر ے جس پر ہما را حکم نہ ہو تو وہ مر دود ہے اِس لیے اِس آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر تم خدا سے محبت کے دعو ی میں سچے ہو تو میری سنتوں پر عمل کرو تو اُس وقت وہ تمہا را چاہنے والا بن جا ئے گا بعض اہل حق صوفیا کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کو تیرا چاہنا کو ئی با ت نہیں لطف تو اس وقت ہے کہ خو د بخود تجھے چاہنے لگے یعنی اگر کو ئی مسلمان بھی اگر یہ چاہتا ہے کہ ما لک کا ئنا ت کی نظروں میں وہ محبوب ہو جا ئے اُس کی بر گزیدہ بندہ بن جا ئے تو اِس کا طریقہ واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ قرب الہی اور خشنودی خدا کے لیے سرور دو جہاں ۖ کی اطا عت اور عشق بہت ضروری ہے۔
یعنی عشقِ رسول ۖ خدا کی محبت کی نشانی ہے عاشق ِ رسول ۖ ہر نام میں پیا رے آقا کی پیروی کو ہی اسلام سمجھتے ہیں خدا تعالی بھی یہی کہتا ہے کہ میرے محبوب ۖ کی مخالفت کفر ہے یعنی ایسے لوگ خدا کے دوست ہو ہی نہیں سکتے جو میرے محبوب ۖ کی حقیقی پیروی نہ کر تے ہوں پیا رے آقائے دو جہا ں ۖ کی یہ حدیث مبارکہ کہ تم میں سے کو ئی شخص اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک میں اُسے والدین اولاد اور دنیا بھر کے لوگوں سے زیاد ہ محبوب نہ ہو جا ئوں ۔ اِس حدیث کی تشریح حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اِس طرح کر تے ہیں یعنی مومن کا مل کے ایمان کی نشانی یہ ہے کہ مومن کے نزدیک رسول اللہ ۖ تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و معظم ہوں۔
اِس حدیث میں حضور ۖ کے زیادہ محبوب ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ حقوق کہ ادا ئیگی میں حضور ۖ کو اونچا مانے اِس طرح حضور ۖ کے لا ئے ہو ئے دین کو تسلیم کرے حضور ۖ کی سنتوں کی پیروی کر ے حضور ۖ کی تعظیم و ادب بجا لا ئے اور ہر شخص اور ہر چیز یعنی اپنی ذات اپنی اولاد اپنے ماں با پ اپنے عزیزو اقارب اور اپنے ما ل و اسباب پر حضور ۖ کی رضا اور خو شی کو مقدم رکھے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر پیا ری چیز یہاں تک کہ اپنی جان کے چلے جا نے پر بھی راضی رہے لیکن حضور ۖ کے حق کو دبتا ہوا گوارہ نہ کر ے ۔ ویسے تو مسجد نبو ی ۖ کا چپہ چپہ عاشقوں کے لیے نہا یت محترم ہے لیکن روضہ رسول ۖ اور ریا ض الجنہ کی شان بہت بلند ہے ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ عاشقان ِ رسول ۖ ریا ض الجنہ کی طرف جا رہے تھے ریا ض الجنہ روضہ الرسول ۖ سے منبر تک با ئیس میٹر طول اور پندرہ میٹر چوڑا ہے اِس حصے میں آٹھ ستون ایسے ہیں جنہیں مسجد نبوی ۖ کے با قی ستونوں سے امتیاز حاصل ہے۔
اِس ستونوں کو سنگ مرمر اور سنہری مینا کا ری سے مسجد نبوی ۖ کے با قی ستونوں سے نما یاں کیا گیا ہے یہ ستون روضہ انور کی مغربی دیوار کے ساتھ ممتا ز کر دئیے گئے ہیں جو ریا ض الجنہ کے اندر واقع ہیں ان عظیم الشان متبرک ستونوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ستون حنانہ یہ منبر رسول ۖ کے نزدیک واقع ہے جب کسی اونٹنی کے بچے کو ماں سے جدا کر دیا جا ئے تو وہ اپنی ما در کے فراق میں روتا اور بلکتا ہے اِس آواز کو عربی میں حنا نہ کہتے ہیں دراصل اِس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے اُسے حنا نہ کا نام دیا گیا منبر رسول ۖ کے تیار ہو نے سے قبل آقائے دو جہاں ۖ اِس جگہ پر کھڑے ہو کر اِس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کر تے تھے لیکن جب منبر رسول ۖ تیا ر ہو گیا تو آپ ۖ منبر کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے تب جدا ئی میں کھجور کے درخت نے اس طرح رونا چلا نا شروع کر دیا جس طرح اونٹنی کا بچہ روتا اور چلا تا ہے۔
اِس درخت کی آہ زاری اور شور سے سرور دو جہا ں ۖ نے آکر اِس تنے کو پیا ر کیا اور جنت کے درخت ہو نے کی بشارت دی ۔ ستون ابی لبا بہ روضہ رسول ۖ کے بلکل سامنے واقع ہے جسے ستون تو بہ بھی کہا جا تا ہے اِس ستون کی وجہ تسمیہ کچھ اِس طرح ہے کہ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو وہاں پہلے سے بہت زیا دہ یہودی مو جود تھے مسلمانوں نے اِن سے امن معاہدہ کر لیا لیکن یہودیوں نے امن معا ہدے کی پاسداری نہ کی اور اسے تو ڑ دیا تو اللہ تعالی اور رسول کریم ۖ نے سخت غصے اور بر ہمی کا اظہا ر کیا اور پھر اللہ تعالی کی طرف سے حکم نا زل ہوا کہ معاہدے کی حدیں پا مال کر نے والے یہودیوں کو قتل کر دیا جا ئے۔
حضرت ابی لبا بہ مدینے کے پر انے رہا ئشی تھے اِن کے یہودیوں کے ساتھ دوستانہ مرا سم تھے ابی لبا بہ نے ہر چیز جا کر یہودیوں کو بتا دی اور ہا تھ کے اشارے سے گردن کی طرف اشارہ کیا کہ آپ سب کے گلے کا ٹے جا ئیں گے بعد میں ابی لبا بہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا کہ اُنہیں ایسا نہیں کر نا چاہیے تھا اپنی اس غلطی پر وہ اتنے زیا دہ شرمند ہ ہو ئے کہ احساس ندا مت سے زمین میں گڑے جا رہے تھے انہوں نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ۖ کا مجرم گردانتے ہو ئے مسجد نبو ی ۖ میں ایک کجھو ر کے درخت کے ساتھ رسیوں سے باندھ لیا اور پھر اللہ کی با رگا ہ میں گڑ گڑا کر اپنی غلطی کی معا فی ما نگنے لگے ان کا کہنا تھا جب تک اللہ مجھے معاف نہیں کر ے گا میں اسی طرح اپنے آپ کو رسیوں سے باندھے رکھوں گاپھر اللہ تعالی نے اُنہیں معاف کر دیا ۔ ستون سر یر کا مطلب ہے سونے کی جگہ یہ وہ جگہ ہے جہاں رسول اقدس ۖ نے اعتکاف فرمایا۔ اِس جگہ آپ کا بستر مبا رک بچھا ہو تا اِس بستر پر اکثر سرور کا ئنات ۖ آرام فرما تے اِس لیے اِس ستون کا نام ستون سر یر ہے ستون وفود اِس جگہ مدینہ سے با ہر آئے ہو ئے وفود آپ ۖ سے ملا قات فرما تے اور دین اسلام کے متعلق انہیں آقا ئے دو جہا ں ۖ تبلیغ کیا کرتے۔
اِس لیے اِس ستو ن کا نام ستون وفود ہے ستون حضرت علی اِس جگہ حضرت علی اکثر نما ز ادا کیا کر تے تھے نیز اِس جگہ بیٹھ کر سرکار دو جہاں ۖ کی پا سبا نی فرما یا کر تے محبوب خدا شا فع محشر ۖ جب حضرت عائشہ کے حجرہ مبا رک سے نکل کر مسجد میں داخل ہو ئے تو اِسی جگہ سے ہو کر گزرتے اکثر اوقات دیگر صحابہ کرا م بھی حضرت علی کے ساتھ بیٹھ جا یا کر تے اِس منا سبت سے اِس ستون کو ستون علی کہتے ہیں۔ ستون تہجد یہ ستون اصحاب صفہ کے چبو ترے کے سامنے اور حضرت فاطمہ کے حجرے کے کو نے پر واقع اِس جگہ نبی کریم ۖ نما ز تہجد ادا فرماتے اِس لیے اِس ستون کا نام ستون تہجد ہے۔
ستون جبرائیل اِس جگہ حضرت جبرائیل داخل ہو کر نبی کریم ۖ کی خدمت میں حا ضر ہوا کر تے آج کل یہ ستون روضہ مبارک کے اندر آنے کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہے ۔ رو ضہ رسول ۖ کی جا نب سے چلیں تو راستے میں آنے والا تیسرا ستون ستون عائشہ کہلا تا ہے پیا رے آقا ۖ نے اپنی حیات مبا رکہ میں فرما یا تھا کہ اِس مسجد میں ایک ایسی متبرک جگہ موجود ہے اگر لوگوں کو اُس کی فضیلت کا اندازہ ہو جا ئے تو وہ قطاروں میں کھڑے ہو کر اُس جگہ نماز پڑھیں مگر آپ ۖ نے وہ جگہ نہ بتا ئی آپ ۖ کے وصال کے بعد اصحابہ نے اماں عائشہ سے درخواست کی کہ اُس جگہ کی نشاندہی کر دیں تو آپ نے انکار کر دیا لیکن بعد میں حضرت عبداللہ ابن زبیر کے اصرار پر اُس جگہ کی نشاند ہی کر دی۔
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956