تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا۔ کیا تیرے دل میں کوئی حاجت اور آرزو ہے جسے میں آپ کے رب تک پہنچا دوں۔؟ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے عرض کیا کہ میرے دل میں فقط ایک آرزو ہے جو آپ میرے رب تک پہنچا دیجئے۔ وہ یہ کہ قیامت کے دن جب آپ کی گنہگار امت پل صراط سے گزرنے لگے اور گزرتے وقت اس کے قدم لڑکھڑانے لگیں تو باری تعالیٰ مجھے اس امر کی اجازت دیدیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لئے پل صراط پر اپنے پر بچھا دوں تاکہ وہ سلامتی سے گزر سکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کی یہ خواہش آپ کے رب تک پہنچا دوں گا اور وہ اسے ضرور پورافرمائے گا۔
طائف کے سفر کے بعد معراج کا واقعہ پیش آیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا خاص انعام اور نبوت کا بہت بڑا معجزہ ہے۔یہ بات اچھی طرح جان لینی چاھیئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج جاگنے کی حالت میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ ھوئی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ام ھانی کے گھر رات کے وقت آرام فرما رھے تھے کہ اللہ نے جبرائیل و میکائیل علیہماالسلام کو آپ کے پاس بھیجا وہ آپ کو مسجد حرام لے گئے پھر وھاں سے براق پر سوار کروا کر مسجد اقصی لے گئے۔۔۔۔
مسجد اقصی میں تمام انبیاء نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ پھر آپکو ساتوں آسمانوں کی سیر کروائی گئی۔ جلیل القدر انبیا سے ملاقات کروائی گئی، جنت و دوزخ دکھلائی گئی۔ معراج کے سفر کے دوران آپکو آخرت کی مثالی شکل کے ذریعہ مجاھدین کے حالات دکھائے گئے حضرت جبرائیل امین نے بتایا کہ اللہ نے مجاھدین کی ہر نیکی کا ثواب سات سو گنا کر دیا ھے۔معراج کے سفر کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خیانت کرنے والے، فرض نمازوں کو چھوڑنے والے، زکوة ادا نہ کرنیوالے، بدکاری کرنے والے، ڈاکہ ڈالنے والوں وغیرہ لوگوں کے بھیانک انجام دکھائے گئے۔مثلا فرض نماز چھوڑنے والوں کے سروں کو کچلا جارہتا تھا انکے سر ریزہ ریزہ ہوجاتے پھر ٹھیک ہوجاتے پھر مارا جاتا اسی طرح کچلنے کا عمل جاری رہتا۔
سدرة المنتہی جو ساتوں آسمانوں سے اوپرہے وھاں پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل امین کو انکی اس اصل شکل میں دیکھا جس شکل میں اللہ نے انھیں بنایا تھا انکے چھ سو پر ہیںہر پر اتنا بڑا ہے کہ اس سے آسمان کا کنارہ چھپ جائے ان پروں سے رنگا رنگ موتی اور یاقوت اتنی زیادہ تعداد میں گر رہے تھے کہ جسکا شمار اللہ ھی کو معلوم ھے۔ سدرة المنتہی پہنچنے کے بعد حضرت جبرائیل امین علیہ اسلام نے کہا کہ میری پہنچ کا مقام یہاں ختم ھوگیا اب آپۖ آگے تشریف لے جائیں۔ چناچہ ایک بدلی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آگھیرا اور آپ کو اس بدلی کے ذریعہ اوپر اٹھا لیا گیا بعض روایات میں ایک سیڑھی کے ذریعہ اٹھانے کا ذکر بھی آیا ھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے یہاں تک کہ سونے کے ایک تخت تک پہنچ گئے اس پر جنت کا ریشمی قالین بچھا ہوا تھا آپ نے اللہ کی حمد بیان کی پھر آپکو اللہ کادیدار ھوا آپ فورا سجدہ میں گر گئے پھر اللہ نے آپ پر وحی اتاری قرآن ِ مقدس و فرقانِ حمید میںاللہ پاک کا ارشاد ہے وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
اِس آیتِ مقدّسہ پر غور و تدبر کریں تو شکوک و شبہات کے تمام راستے خودبخود مُقفّل ہو جاتے ہیں، کسی اِلتباس کی گنجائش رہتی ہے اور نہ کسی اِبہام کا جواز باقی رہتا ہے۔ عقلی اور نقلی سوالات آنِ واحد میں ختم ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے اور حقیقت اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ذہنِ اِنسانی پر مُنکشف ہو جاتی ہے۔اِیمان میں مزید اِستحکام پیدا ہوتا ہے، اِیقان کو مزید پختگی نصیب ہوتی ہے، نصِ قرآن سے بڑھ کر تو کوئی رِوایت نہیں ہو سکتی۔ جب باری تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ میں اپنے بندے کو رات کے ایک قلیل عرصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اَقصیٰ تک لے گیا۔ اِس پر بھی عقلِ اِنسانی اِستعجاب کا مظاہرہ کرتی ہے۔
ذہنِ اِنسانی میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ سفر جو ہفتوں اور مہینوں کا تھا، وہ رات کے ایک تھوڑے سے وقت میں کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟ اِس کا جواب یہی ہے کہ اِس کا اِنحصار تو لے جانے والے کی طاقت اور قوّت پر ہے۔ اُس سفر کا سارا اِنتظام ربِّ کائنات کی طرف سے ہو رہا ہے، وہ جو ہر چیز پر قادِر ہے۔ طاقت اور قُدرت اُس ذات کی کار فرما ہے جو اِس کائنات کا خالق و مالک ہے، کائنات کا ذرّہ ذرّہ جس کے حکم کا پابند ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سماوِی سفر کس رفتار سے طے کیا اور کیسے کیا، زمان و مکان کی قیودات سفرِ مِعراج پر اَثر اَنداز ہوئیں یا نہ ہوئیں، کیا برّاق اور رفرف کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تھی؟ اِن تمام سوالات کے جوابات لفظِ ”سُبْحٰنَ الَّذِیْ” میں مضمر ہیں۔
سفرِ معراج سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں یعنی مکانی اور زمانی سفر طے کرنا۔ قرآن مجید میں ان دونوں کو ساتویں صدی عیسوی کے اوائل واقعات کی نسبت سے ا? تعالیٰ نے پہلے ہی بیان فرما دیا ہے۔ سفرِ معراج مکانی اور زمانی کی جامعیت کا مظہر ہے، سفر کا ایک رخ زمانی کا مظہر ہے، تو دوسرا رخ مکانی پر محیط نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آپ سے اجازت طلب کروں ۔ یہ بات بڑے فخر کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ واقعہ معراج اللہ پاک کے پیارے محبوب کا پیارا معجزہ ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لئے اللہ کا فضل و کرم مانگنا چاہیے ، آئیے اللہ پاک کی الہامی کتابِ مبین کی طرف جیسا کہ قرآن پاک میں زکر ملتا ہے کہ ملکہ سبا بلقیس جو حضرت سلیمان سے900 میل کے فاصلے پر ہے، حضرت سلیمان سے ملنے آتی ہے۔ حضرت سلیمان چاہتے ہیں کہ اُس ملکہ کا تخت اُس سے آنے سے پہلے دربار میں پیش کردیا جائے۔
آپ نے اپنے درباریوں سے یوں کہا: ترجمہ: ” اے دربار والو! تم میں سے کون اُس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے، قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرماں بردار ہوکر میرے پاس آئیں۔ ایک قوی ہیکل جن نے کہا میںآپ کے اٹھنے سے پہلے اُسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں اور میں اُس کے لانے پر طاقت ور اور امانت دار ہوں۔اِس سے ثابت ہوا کہ حضرت سلیمان کے دربار کے ایک جن کو اللہ پاک نے اتنی قوت عطا کی ہوئی تھی کہ دربار ختم ہونے سے پہلے 900 میل کے فاصلے سے تختِ بلقیس اٹھا کر لے آئے، حضرت سلیمان کو اتنی تاخیر بھی گوارانہ تھی، آپ نے کہا: اِس سے زیادہ جلدی کون لاسکتا ہے؟ آپ کے ایک صحابی حضرت آصف بن برخیا جو کتاب کا علم رکھتے تھے، اٹھے اور کہا:ترجمہ:” میں آپ کی نگاہ چھپکنے سے پہلے وہ تخت آپ کے پاس لا سکتا ہوں، پس حضرت سلیمان نے اُس (تخت) کو اپنے پاس رکھا دیکھا اور کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے،(النمل:38تا40) ”۔ اللہ رب العزت فرماتے ہے کہ عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
اگر ایک جن کو رب اتنی قوت دے سکتا ہے کہ وہ 900 میل کی دوریپر تخت دربار ختم ہونے سے پہلے لا سکتا ہے ، صحابی حضرت آصف بن برخیا جو کتاب کا علم رکھتے تھے،آنکھ جھپکنے سے پہلے وہ 900 میل کی دور ی پر تخت دربار میں لاتے ہیں ، اندازہ کرو پھر اللہ پاک نے حضرت سلیمان علیہ اسلام کو کتنی قوت دی ہوگی، اور واقعہ معراج میں وہ رب جو سب قوتوں کا مالک ہے ۔ جو صرف کہتا ہے ۔ ہو جا! تو وہ چیز ہو جاتی ہے، وہ اللہ اپنے پیارے محبوب ۖ کو پیارا معجزہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج جاگنے کی حالت میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ ھوئی ھے۔
تیری معراج کہ تو لوح وقلم تک پہنچا میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا