تحریر: محمد عتیق الرحمن
یہ تحریر میری نہیں ہے ۔ اسلام آباد سے ایک بارہویں کلاس کے طالب علم عبدالعزیز کی ہے جو کہ اسلام آباد کالج فار بوائز، جی۔سکس/تھری۔ اسلام آباد میں زیرتعلیم ہے۔ میرا اس تحریر کو اپنے کالم میں لانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مجھے یہ تحریر اس قدر خوبصورت لگی کہ میں مجبور ہوگیا کہ اس طالب علم کی تحریر کو اپنے قارئین کے سامنے لاؤں تاکہ پاکستانی دیکھ سکیں کہ ایک طالب علم میں کس قدر اپنے نبی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم سے محبت بھری ہوئی ہے اور میرا اس سے اور مقصد بھی تھا کہ میں باوجود شدید خواہش اور کوشش کے محمد کریم ﷺ کی شان میں لکھنے سے ہچکچاتا ہوں کہ کہیں کوئی بے ادبی نہ ہوجائے تو اسی بہانے یہ تحریر میری خواہش کو پوری بھی کررہی ہے ۔لیجیئے اب طالب علم کی اجازت سے اس کی تحریر پڑھیں۔
’’میرا پیمبر عظیم تر ہے، دو جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ میرا پیغمبر اماوس کی رات میں نور کی کرن، ذرا سی بات پر خون، پانی کا فرق بھلادینے والی قوم کا رکن۔۔ جس نے معافی دی، سراپا عفو۔۔ اپنوں کے ساتھ، غیر سے، دشمن سے بھی اوردوست سے بھی بلاتفریق درگزر کیا۔ قتل کی سازش کرنے والوں کو بھی، جیتے جی ماردینے والوں کو بھی، وطن عزیز مکہ سے نکال دینے والوں کو بھی الغرض سب کو معاف کیا!۔
یہ دیکھئے! یہ ابو رہم (سیدنا ابورہم منحور غفاری رضی اللہ عنہ) ہیں۔ رات طویل تراور کربناک ہے۔ اک لغزش ہوئی ہے، بہت ندامت ہے۔۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کا چہرہ سامنے آتا ہے، جانثار کا دل ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔۔ ہمت مجتمع نہیں ہوتی، کوئی امید بر نہیں آتی!۔۔ ادھر آقاﷺ ہیں ، تکلیف میں ہیں لیکن ایک درد ماورا ہے، ایک امتی کا درد، خاصہ نبوت کا درد۔۔ صبح ہوتی ہے، ابو رہم رضی اللہ عنہ حاضر ہوتے ہیں: اے اللہ کے رسولﷺ۔۔ ابھی کچھ کہنا ہی چاہا ہے کہ شانِ عفو کی داستان رقم ہوئی ہے۔۔۔ ارشاد ہوتا ہے “اے ابو رہم! تمہارے جوتے سے میری ران زخمی ہوئی تھی جس پر میں نے تمہیں کوڑا مارا، تمہیں تکلیف پہنچی ہے، اس کے عوض یہ بکریوں کا ریوڑ لو”۔۔ جانثار کا رواں رواں فرطِ مسرت سے دوچار۔۔میرے آقا نے “نہ صرف معاف کیا بلکہ نوازا بھی”! (سنن الدارمی:73)۔
وہ واقعہ۔۔اثال کا بیٹا ثمامہ؛(سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ) فرمانروائے یمامہ۔ کہتا ہے “کہ محمد ﷺ کے مکھڑے سے حسین تر، کوئی ماں جن نہ سکی؛ ام القری مکہ، برحق، افضل ترین شہر ہے۔۔۔ قریشیو! میرے نبی ﷺ کو ایذا دینے والو!۔۔۔ دیکھتا ہوں کیسے بچتے ہو! رسائی بند، راستہ بند؛ خبردار یمامہ کی زمینیں کفار کیلئے بنجر ہیں؛ ذرا جی کے دکھاؤ۔۔۔” لیکن۔۔۔ اللہ اکبر! نبی ۔ کا حکم ، اوپر سے آرڈر آیا، نبی عفو و رحیم ﷺ کا۔۔ نہیں ثمامہ! ایسا نہ کرو! ارے ہاں یہ تو وہی ثمامہ جو کہتا تھا: بدترین چہرہ محمد (ﷺ ) کا اور بدترین جگہ مکہ (معاذاللہ)، صحابہ کا قاتل، بڑا سخت دشمن!! عفو کی مار مارا گیا، بخشا گیا میرے نبی ﷺ کے درگزر کے سامنے سلطے کے زعم عنقا ہوگئے! اللہ اکبر!! (صحیح البخاری: 4372)۔
یہ حرب کا بیٹا (سیدنا ابو دسمہ وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ) ہے، غیظ و غضب میں ڈوبا ہے۔۔ کون ہے وہ گستاخ ( مسیلمہ کذاب)؟؟۔ ختم نبوت پہ ڈاکہ ڈالنے والا! کدھر ہے؟ ابو دسمہ کا نشانہ چوک جائے؛ محال ہے۔۔۔ اچھا تو یہ، حواریوں کے جھرمٹ میں، یہ رہا جھوٹا نبی۔۔ یہاں تیر نکلا ہے، وہاں نبیﷺکی شان عفو کا باب رقم ہوا ہے!!۔۔۔ چند سالوں پہلے، ہو بہو یہی واقعہ ہوا تھا! تب مقتول کوئی اور تھا، بڑا دکھ دیا تھا نا نبیﷺ کے چچا (سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ) کو شہید کر کے!!۔۔ کوئی میرے عزیز کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے تو، مجھے برداشت نہیں ہوتا!! ہاں لیکن میں امتی احمدِ مرسلﷺ کا۔۔۔ جس نے صرف اتنا کہا: “وحشی! ہو سکے تو میرے سامنے نہ آنا۔”۔۔ آہ!۔۔ یارب! اتنا کرم۔۔ اے خدا! میں حمزہ (رضی اللہ عنہ) کا کفارہ ادا کرتا ہوں۔۔ پس مسیلمہ خون میں نہلادیا!! “محمدﷺ کے عفو نے کذاب اول کا خاتمہ کردیا!!”۔ (صحیح البخاری: 4072)۔
۔۔۔۔ اور وہ دن! یوم فتح مبین؛ میرے نبیﷺ سے رب نے وعدہ وفا کیا ہے! قطار اندر قطار، مجرم حاضر ہیں۔۔ ابرو کا اشارہ ہو، سر تن سے جدا ہو۔۔۔لیکن کیا کیا ؟؟ وہی جو کافرو!! آج تم ہمارے بھائیوں کے ساتھ کرتے ہو؟؟ اس نبی ﷺ کے امتیوں کے ساتھ کرتے ہو؟؟ قطاروں کی قطاریں اور سروں سے خون کی پھواریں!! نہیں اللہ کی قسم !!۔۔۔ ذرا دیکھو تو یہ امیہ کا بیٹا صفوان! (سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ) مؤذنِ نبویﷺ (سیدنا بلال بن رباح حبشی رضی اللہ عنہ) کو احد، احد کہنے کی سزا دینے والا! اور یہ عکرمہ (سیدنا عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ)؛ جاھل اعظم کا بیٹا۔۔۔ اور اللہ اکبر!! اللہ اکبر!! یہ تو لفاظی سے بالا تر داستاں ہے، ذرا دل تھامئے۔۔۔ ھبار (سیدنا ھبار بن اسود رضی اللہ عنہ)بن اسود اعمالِ اسود میں لتھڑا۔۔۔ اس کا جرم۔۔۔۔۔۔ زینب رضی اللہ عنھا بنت رحمۃ اللعالمینﷺ۔۔۔ حمل ساقط کر دیا ظالم نے! مباح الدم ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر! یہ بھی لائن حاضر ہوتا ہے؛ “ھبار! اسلام گذشتہ سب کو بھول گیا”!! سلام ہو تجھ پر زخم کھا کر پھول برسانے والے!! سلام ہوکروڑ ہا سلام!! (الاصابہ: 8935)۔
عیسائیو! تم نے خاکے بنائے تھے میرے نبیﷺ کے!! اور یہودیو! تم روز اول سے میرے نبیﷺ کے دشمن، حالانکہ تم بعثت سے پہلے دعائیں کرتے تھے، تمہارے میں سے ہی ایک عورت ( خیبر کی یہودی عورت زینب اغلباََ) تھی نا! میرے نبیﷺ کی قاتل!! جس نے زہر کھلایا تھا ۔جس کا اثر حبیب کبریا ﷺ کو وفات تک رہا! (سنن ابی داؤد: 4512) اس کا کیا بنا؟؟ وہی جو فلسطین میں ہماری بہنوں کے ساتھ ہوتا ہے؟؟ نہیں وہ۔۔۔ وہ تو معاف کر دی گئی۔ یہ ہے عفو، یہ ہے درگزر۔۔ ظالمو! سنتے ہونا؟؟۔
اور وہ بھی تو تمہاری قوم کا ایک فرد ( سیدنا زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ) تھا نا۔ پڑھا لکھا جاہل، نور الہی سے دوری کی جہالت۔۔۔ کیسا بے ادب، “او محمد! (ﷺ) میرا مال لوٹادے”۔۔ دیکھا تم نے ! کیا بیہودہ لہجہ تھا۔۔ اور قرآن کو پاؤں تلے روندنے والو!! سنو ذرا! مدت بھی باقی ہے قرض واپسی کی۔ جونہی ابن سنعہ بولا ہے، قسمت کا ستارہ چمکا ہے۔ ہاں ہاں! جانثاروں کا غصہ آفاق تلک۔۔۔۔۔۔۔ اے خاکہ نگار! “زید نہ صرف بخشا گیا، بلکہ مطالبہ پورا کیا گیا؛ مزید نوازا گیا “۔۔ صدا بلند ہوتی ہے: “اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اس عظیم انسان کی شان میں گستاخی کرتے ہو؟؟ اور یہی تمہاری قوم کا سردار۔ اب ہمارا ہے، کہتا ہے : “سب نشانیاں پوری ہوئیں، ایک نشانی باقی تھی کہ آخری نبی ﷺ آئے گا؛ اس کا حلم ﷺغضب پر حاوی ہوگا” سو آج وہ بھی پوری ہوتی دیکھ لی۔۔ ۔۔۔ یارب! یہ تو سانچا ہی جب بنایا گیا تو عفو کو اس میں سراپا سرایت کردیا گیا، تورات بتلاتی ہے؛ (یہودیو!) تم جھٹلاتے ہو! (اپنی ہی کتاب کو)(صحیح ابن حبان: 288)۔
یا رب العالمین! میں تیرا بندہِ مذنب! تیری رحمت کا، تیرے محبوبﷺ کی محبت کا طالب۔۔ جذبات غالب، آنکھیں بھیگ جاتی ہیں؛ احمدﷺ کا درگزر کیسے بیاں ہو۔۔ اللہ اکبر! احساس زبان پر غالب ہیں۔۔۔۔ اس حدیث پر اکتفا کرتا ہوں۔” ایک نبی تھا! اس کی قوم نے اسے مار مار کر لہو لہان کردیا تھا (التجا ہے کہ ہر کوئی اسے محبت و عظمت کے جذبے سے پڑھے) وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتا تھا اور کہتا تھا’’ اے رب میری قوم کو ہدایت دے وہ نہیں جانتے۔‘‘ ( مسند احمد: 170/6) جی ہاں! ایک نبی تھا ، کون تھا؟۔۔۔۔۔ اللہ اکبر! اللہ اکبر!! (راوی ’سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ‘ کے بقول) وہ نبی خود گویا ہے!! “وہ طائف کی وادی میں کھا کھا کے پتھر”۔۔۔ جی کچھ یاد آیا؟۔۔ یہ عظمت کہ اپنا نام بھی خود لینا پسند نہ کیا! ایک نبی تھا!!!! صلی اللہ علیہ وسلم۔ہے کوئی ایسا؟ نہیں۔۔۔ تجھ سا کوئی نہیں؛ تجھ سا کوئی نہیں، ہے عقیدہ یہ اپنا بصدق و یقین!
میرا پیمبر عظیم تر ہے!! اے اللہ کے رسول! فداک ابی وامی۔۔۔۔۔۔۔!‘‘۔
مندرجہ بالا تحریر بارہویں کے طالب علم کی ہے جو اس نے ایک سوشل میڈیاکے مقابلہ میں پیش کی اور اس تحریر کو پہلا انعام ملا ۔میں اس تحریر کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا۔میرامقصد اس تحریر کو اپنے قارئین کے سامنے رکھنا تھا ۔کیونکہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ محمدکریم ﷺ کی شان میں دولفظ ہی لکھ سکوں ۔اس لئے اس تحریرکے بہانے میں اپنی تحریر کو چمکاررہاہوں۔کیونکہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہواہے کہ ’’بعدازخدابزرگ توئی قصہ مختصر‘‘۔
تحریر: محمد عتیق الرحمن
03216563157