تحریر: زاہد محمود
دنیا بھر میں نئے سال 2016 ء کی آمد کو جوش و جذبے سے ویلکم کیا گیا مختلف ممالک میں نئے سال کے آغاز کو لوگ اپنے روایتی اندازمیں ویلکم کرتے ہیں کہیں پھولوں کی بارش برستی ہے کہیں آتش بازی کے خوبصورت مناظر سے بلند و بالاٹاورز جگ مگاتے ہیں تو کہیں اسی آتش بازی سے برج خلیفہ اور کروڑوں کی املاک جلتی نظر آتی ہے۔ پاکستان میں بھی نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لئے مختلف شہروں میں خصوصی آتش بازی کے انتظامات کیے گئے پاکستان کو دنیا بھر میں خصوصی اعزاز حاصل ہے یہ قوم نئے سال کی آمد کو خوش آمدید کہنے کے لئے آتش بازی کے ساتھ ہوائی فائرنگ کا استعمال بھی بے دریغ کرتی ہے ابھی نئے سال کی تقریبات اختتام پذیر بھی ہونے نہ پائی تھیں ایک بار پھر دہشتگردوں نے ملٹری لباس پہن کر انڈین ریاست پٹھانکوٹ کی ائر بیس پر حملہ کر دیا جو پاکستانی سرحد کے کافی نزدیک ہے۔
جیسے ہی ائر بیس پر حملے کی بریکنگ نیوز چلناشروع ہوئی انڈین میڈیا حملے کے گٹھ جوڑ براہ راست پاکستان سے جوڑنے لگا انڈیا میں حملہ ہوا وہاں پر سکیورٹی کے ناقص انتظامات کی نشاندہی کرنے کی بجائے انڈین میڈیا پاکستان پر تنقید کرتا نظر آیا۔ دونوں ملکوں کے حالات کچھ ایسے ہیں جہاں غربت اور جہالت کا راج ہے۔ دونوں ملک بری طرح سے انتہا پسندی کا شکار ہیں۔دو بڑی جنگوں میں اب تک دونوں ملک بھاری جانی و مالی نقصان اُٹھا چکے ہیں۔مسئلہ کشمیر سے لے کر دریائی پانی کی منصفانہ تقسیم دریائوں پر ڈیم بنانے سرحدی در اندازی سمیت بے شمار ایسے مسائل جو اب تک جنگ سے تو کسی صورت حل نہیں ہو سکے سفارتی سطح پرمضبوط مذاکرات ہی ان کا واحد حل نظر آتا ہے۔
ان چند بڑے مسائل نے دیگر بے شمار مسائل پیدا کیے ہیں جن میں سرِفہرست انتہا پسندی کی کوک سے جنم لینے والی دہشت گردی ہے خاص طور پر پاکستان ایک لمبے عرصے سے دہشت گردی کے خلاف برسرِپیکار ہے پاکستان میں دہشت گردی کے ایسے واقعات انڈیا کی نسبت کہیں زیادہ ہوئے پاک انڈیا تعلقات کی گزشتہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو عمومی طورپر انڈیا میںایسے واقعات اُس وقت ہوئے جب پاکستان سے کوئی مثبت بات چیت کی کوشش شروع کی گئی ہو اور خصوصی طور پر دہشت گردی کے واقعات ایسے وقت میں ہوئے جب انڈیا کے وزیر اعظم سفارتی طور پر پاکستان آنا چاہتے ہوں یا پاکستانی وزیر اعظم انڈیا جانا چاہتے ہوں۔ جب بھی ایسا موقع آیاامن کی کوششوں کو دونوں جانب سراہا گیا ہوسرد مہری کی برف پگھلنے لگی ہوانتہا پسند تنظیموں کو اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔
انہیں اپنے ناجائز مفادات، کاروبارٹھپ ہوتے نظر آتے ہیں۔انہیں لگتا ہے جب تک نفرت کی دیوار دونوں ملکوں کے بیچ موجود رہے گی ان کے کاروبار مضبوط رہیں گے لوگوں کے مذہبی جذبات کویرغمال بنا کریہ انتہا پسندتنظیمیں اپنے غیر قانونی دھندوں کو تحفظ دیتی ہیں۔اس مسئلے کا حل سوچنے اوراپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگاکر حقائق سے آنکھیں نہیںچرائی جا سکتی۔
جنرل مشرف نے آرمی چیف ہوتے ہوئے انڈیا کے ساتھ جنگ کی بجائے مذاکرات کو ترجیح دی عالمی کانفرنس میں جنرل مشرف اپنی سیٹ چھوڑ کر بھارتی وزیر اعظم سے مصافحہ کرنے ان کے پاس چلے آتے ہیں جنرل مشرف کے اس مثبت قدم کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے اسی دورانیہ میں دوستی ٹرین پر حملہ ہو جاتا ہے پھر سے کشیدگی اتنی بڑھ جاتی ہے دونوں ملکوں کی افواج سرحدوںپر پہنچ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں انڈیا کو فیورٹ ملک کا درجہ دینے کے لئے ایک بار پھر سے سفارتی کوششیں کی جاتی ہیں اسی اثنا میں ممبئی حملوں کا واقعہ رونما ہو تا ہے پاک انڈیا تعلقات پھر سے گردش میں آجاتے ہیںانڈین میڈیا یک طرفہ طور پر طبلِ جنگ بجاتا ہے امن کی کوششیں پھر سے ناکام ہو جاتی ہیں ۔ مذہبی تنظیموں کو بھی اپنے حصے کا ثواب سمیٹنے کا موقع ملتا ہے۔
پاکستان ،انڈیادو آزاد ملک جس دن سے دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوئے تب سے یہ ہمسائے ہیں۔ دونوں ملکوں کی جغرافیائی صورت حال کچھ ایسی ہے یہ اَبد تک ہمسائے ہی رہیں گے ۔دیرینہ ساتھ نبھانے کے لئے امن کا راستہ دریافت کرنا اور اختیار کرنا بہت ضروری ہے شمالی و جنوبی کوریا دونوں ملک اَزلی ہمسائے اور ایک عرصہ تک اَبدی دشمن تھے گزشتہ دہائی میں دونوں ملکوں نے اپنے اختلافات مذاکرات کی میز پر حل کرکے دشمنی کو دوستی میںبدل دیاکیونکہ مسائل و اختلافات جنگوں سے نہیں بات چیت اورمذاکرات سے مٹائے جاتے ہیں۔
آخر خفیہ ندیدہ قوتیں دونوں ملکوں کے بیچ امن کیوں نہیں ہونے دینا چاہتیں عالمی سیاسی ٹھیکیدار اس مقصد کے لئے انتہا پسند تنظیموں کو کیوں فنڈنگ کرتے ہیں؟ اندرون ممالک انتشار اور غیر یقینی صورت حال عالمی سیاسی طاقتوں کو ہمیشہ فائدہ پہنچاتی رہی ۔ایک طرف ترقی یافتہ طاقتیںانڈیا کی پشت پناہی بھر پور طریقے سے کر تی ہیں جس کا مقصد چین کے مقابلے میں بھارت کو مضبوط کرنا ہے اس مقصد کے لئے انڈیا کے ساتھ عسکری و جوہری ہتھیاروں کی جنریشن پاور بڑھانے کے لئے ہر سال پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ معاہدے کیے جاتے ہیں دوسری طرف یہی طاقتیں انتشار پسند عناصر کو بھی محفوظ رکھتی ہیں تاکہ کسی بھی وقت انہیں استعمال کیا جا سکے۔
دہشتگردی ختم کرنے کے لئے پہلے انتہا پسندانہ سوچ ختم کرنا ہو گی انتہا پسندانہ سوچ ختم کرنے کے لئے غربت ،بے روز گاری اور جہالت کا خاتمہ ضروری ہے ۔ امن پسندلوگ اوردونوں ملکوں کی عوام آج بھی پاک انڈیا تعلقات کا حل مذاکرات کی میز پر چاہتی ہے جس سے دور س فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔لوکل تجارت پر ڈیوٹی ہٹا کر دونوں اطراف مہنگائی و افراطِ زر پر قابو پایا جا سکتاہے پیاز، ٹماٹر، نمک و چینی کی قیمتیں بھی عام آدمی کی دسترس میں ہوں گی ویزہ پابندی ختم کر کے مزدوروں کے تبادلے سے غربت و بے روزگاری کی شرح میں کمی لائی جا سکے گی سائنس و ٹیکنا لوجی کے شعبے میں دونوں اطراف سے قابل سائنٹسٹ ایجادات کی دنیا میں انقلاب لا سکتے ہیں۔
دوسری طرف آرٹ انڈسٹری سے منسلک پاکستانی ٹیلنٹ جو تیزی سے ضائع ہورہا ہے اسے بچایا جاسکتا ہے پاکستانی سنگرز کو انڈین عوام میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔پاکستانی بڑی بڑی سیلیبر ٹیز جنہوں نے انڈیا کے پلیٹ فارم سے سٹارٹ لیاآج دنیابھرمیںراج کر رہی ہیںپاکستانی عوام میں انڈین فلمیںپسند کی جاتی ہیں ہماری عورتیں انڈین ڈرامے شوق سے دیکھتی ہیںکیونکہ دونوں اطراف کی عوام جانتی ہے امن بہترین انتقام ہے۔اب وقت آ گیا ہے جب جنگ سے آگے امن کی طرف اگلا قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے نہیں تو ہم خوشحالی اور ترقی کی دوڑ میں دیگر ممالک سے 100 سال پیچھے رہیں گے۔
تحریر: زاہد محمود