مرزا عباداللہ بڑے سے پتیلے میں پانی کو مسلسل بہتا دیکھ کر کہہ رہا تھا۔
“پہلوان جی پانی کی قدر جاننا ہو تو ان سے جانیے جو بوند بوند کو ترستے ہیں۔ پانی اس طرح بہہ رہا ہے جیسے چاندی جھرنوں میں۔ اس نعمت مترقبہ اور نعمت جلیلہ کو تو اس طرح استعمال کرنا چاہئیے جیسے یہ نعمت آج ملے اور کل شاید نہ مل پائے۔”
مراز عباد اللہ کے اس بھاشن پر پہلوان کی آنکھیں کبھی سکڑتیں اور کبھی پھیلتیں۔ خالص لاہوری انداز، کہیں ٹ اور کہیں ٹ کے بغیر لہجہ۔ پہلوان کی پاٹ دار آواز کانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔
“او چھوتے۔ تیرا بیرہ تڑے، کتھےمڑ گیا ایں؟”
اچانک چھوٹا نمودار ہوا۔ ہاتھ میں میلی ٹاکی ایسی کہ سیاہ کپڑے کا گمان ہو، قمیض کے کفوں پر میل کی جمی ہوئی تہہ، ہاتھوں کے بڑھے ہوئے ناخنوں میں میل کا ذخیرہ، کھلا ہوا گریبان اور دودھیا چٹی سفید چمڑی والا چھوٹا قدری ناراضگی سے بولا،
“کی اے بھا جی؟ او کھتے مڑ جانا ایں۔ میڑا تے گلا ای خشک ہو گیا اے تینو ںواجاں مار مار کے۔ بھا جی دسو میں کی کرنا اے۔”
“او کڑنا کی اے۔ اے نلکا بند کڑ دے۔ ایہہ ویکھ اللہ میاں دے دو فڑشتے کھلوتے نیں۔ کہندے نیں پانی خڑے کی، کی ہوند اے۔”
پہلوان نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
پہلوان کا جثہ ایسا جیسے گوشت کا پہاڑ، بھاری بھرکم چہرہ، چہرے پر سجی دو یرقان ذدہ آنکھیں۔ پہلوان جب سانس لیتا تو ایک دنیا اندر کی طرف سمٹتی نظر آتی اور جب سانس باہر نکالتا تو ایک دنیا پھیلتی ہوئی دکھائی دیتی۔ ہاتھ میں لمبا سا کڑچھا حلوے میں پھیرتے ہوئے پہلوان نے مرزا عباد اللہ سے کہا، “ہوڑ بھا جی میں کڑنا اے۔ او وی دس دیو۔”
“جی پہلوان جو عرض کرنا تھا کر دیا۔”
مرزا عباداللہ نے ایک بار پھر سے اپنی پہلے سے منقطع گفتگو کا سراجوڑا۔
مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، “پورا ملک ایک بے یقینی کی کفیت سے دوچار ہے۔ مار دھاڑ، قتل و غارت گری، ہر طرف ایک طوائف الملوکی پھیلی ہوئی ہے۔ ”
مراز عباداللہ کے منہ سے لفظ طوائف الملوکی نکلا تو پہلوان ایک دم آگے ہوا اور کہنے لگا”، بھا جی! ہنیں تسی پانی دیا گلاں کڑ دے سو۔ نعمت تے رحمت دیاں باتاں سن۔ کہندے سو پانی خڑے کی، کی ہوندا اے۔ نال ای تسی طویفیں دیا گلاں شروع کڑ دیتیاں نیں۔”
میں نے وضاحت چاہی تو، پہلوان قدرے ناراضگی سے بولا, “توں مینوں کی دسنا اے, طویف بھاویں شیخاں دی ہوے یا، ملکاں دی ۔ طویف، طویف ہوندی اے۔”
کچھ دیر سر دھننے کے بعد یہ راز کھلا کہ پہلوان نے لفظ طوائف الملوکی کا ترجمہ (ملکاں دی طویف) از خود کیا تھا۔