تحریر : شاہ فیصل نعیم
نابلد اس سے کے میرے ان الفاظ سے کتنے نئے لوگوں کو روزگار کے طریقوں سے آگاہی حاصل ہو گی اور پہلے سے برسرِپکار کتنے بے روزگار ہوں گیں؟ کتنوں کو حیا کی چادر میسر آئے گی اور کتنےبغیر سوچے سمجھے بے حیائی کی دلدل میں کود پڑیں گے ؟ کتنے اربابِ اختیار کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو گا اور کتنے اسے معمول کی ایک خبر جان کر بے حس بنے رہیں گے ۔۔۔۔۔مجھے نہیں علم اس سے کچھ ہو گا یا نہیں مگر میں اپنی ذمہ داری ضرور نبھاؤں گا۔ یہ کوئی رات کے ایک بجے کا وقت ہے میرے سیل فون پہ ایک دوست کا میسج نمودار ہوتا ہے۔
“جلدی سے ہاسٹل کے باہر آؤ”۔ اب میں بغیر سوچے سمجھے کہ معاملہ کیا ہے ہوسٹل کے باہر پہنچ جاتا ہوں۔ سامنے دوست موٹر سائیکل لیے کھڑا ہے۔وہ مجھے سے کہتا ہے: “جلدی سے موٹر سائیکل پہ بیٹھ جاؤ”۔ “یار تو آج سارے کام بڑی جلدی میں کر رہا ہے۔ چل جلد ی میں مجھے بتا دے کے معاملہ کیا ؟ ہم اس وقت کہا جار ہے ہیں”؟”ایک دوست کی برتھ ڈے ہے اور کیک لینے جا نا ۔۔۔۔۔۔اور مزید کوئی سوال نہیں ۔۔۔۔پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکے ہیں۔
اب میں اور میرا دوست برکت مارکیٹ گھوم رہے ہیں مگر دکانیں بند ہو چکی ہیں اور کیک نہیں مل رہا ۔ ادھراُدھر سے پوچھنے پر ایک صاحب بتاتے ہیں کہ گلبرک سے پتا کر لو یہاں سے تو اس وقت کیک نہیں ملے گا۔ ہم گلبر گ کا رخ کر لیتے ہیں۔ہم سڑک سے گزرتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھ رہے ہیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ اس وقت دکان کھولے بیٹھا ہو۔ کوئی دکان تو نہیں ملتی مگر وہاں ایک عجیب سا واقعہ پیش آتا ہے۔ ہم سے کچھ فاصلے پر ایک لڑکی کھڑی ہے جو ہر رکتی گزرتی گاڑی کے پاس جاتی ہے اور گاڑی کا شیشہ نیچے ہوتا ہے لڑکی اور گاڑی والے کے درمیان کچھ الفاظ کا تبادلہ ہوتا ہے۔ لڑکی پیچھے ہٹتی ہے گاڑی کا شیشہ اُوپر ہوتا ہے گاڑی چلی جاتی ہے اور لڑکی واپس فٹ پاتھ پر آکر اپنا لباس سنوارنے لگتی ہے۔ میں اور میرا دوست یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔میں دوست سے کہتا ہوں: “یار ایک کب کا بج چکا ہے اور یہ لڑکی پتا نہیں کتنی ضرورت مند ہے کہ ابھی تک ہر آتے جاتے کے سامنے دامن پھیلا رہی ہے۔۔۔۔۔یار تم ذرا موٹر سائیکل اس لڑکی کے پاس لے چلو۔
وہ موٹر سائیکل لڑکی کے پاس روک دیتا ہے۔ لڑکی ہنستے ہوئے ہماری طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے: “صاب ! آپ اس علاقے میں نئے لگتے ہو۔۔۔راستہ تو نہیں بھول گئے کہیں”؟ “جناب آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں”۔ میرا دوست میری طرف اشارہ کرتےہوئے لڑکی کی بات کا جواب دیتا ہے۔ “جی صاب پوچھو کیا پوچھنا ہے “؟ “میں اور میرا دوست کافی دیر سے ایک عجیب تماشا دیکھ رہے ہیں جو آپ اور یہاں رکتی گاڑیوں کے درمیان جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں جو سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ آپ بہت ضرورت مند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔تبھی تو اتنی رات گئے تک دستِ سوال دراز کر رہی ہیں۔
“دیکھو صاب مجھے کچھ بھی کہو ۔۔۔۔۔۔مگر بھیک مانگنے کا الزام مجھے پر مت لگاؤ۔۔۔۔۔۔اس کام کے لیے تیرے ملک کے حکمران کافی ہیں جوآئے دن کشکول تھامے آئی ایم ایف کے دروازے پر جا صدا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔میں ایسی نہیں ہوں”۔ “آپ بھیک نہیں مانگ رہے “؟ “بالکل نہیں”۔ “تو پھر ہر رکتی گاڑی کے پاس کیا لینے جاتے ہیں”؟ “کتنا بھولا ہے تمہارا دوست سمجھاؤ کچھ اسے۔۔۔۔کہ رات کو اس وقت سڑکوں پر بھیک مانگنے والے نہیں ملتے “۔ وہ میرے دوست کو متوجہ کرتے ہوئے کہتی ہے۔ “بھیک مانگنے والے نہیں تو ۔۔۔۔۔اور کون ملتے ہیں اس وقت “؟ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہے: “جسم فروش ملتے ہیں اس وقت صاب۔۔۔۔۔۔۔جو ہر رکتی گاڑی کے نیچے ہوتے شیشے کے سامنے جھکتے ہیں۔۔۔۔۔۔گر کسی کو پسند آجائیں تو گاڑی کا دروازہ کھل جاتا ہیں ۔۔۔۔۔۔ورنہ ہم واپس آکر کپڑے سنوار لیتے ہیں۔
جسم فروش کا لفظ سنتے ہی میرے دوست پر پریشانی چھا جاتی ہےاور وہ مجھے کہتا ہے: “یار کہا رک گیا ہے ؟ مروائے گا تو ۔۔۔۔۔چل چلیں”۔ “یار کوئی نہیں مارے گا ہمیں۔۔۔۔۔۔۔ہم کوئی غلط کام تو نہیں کر رہے”۔ “او میرے بھائی یہاں ابھی پولیس والے آگئے نا ۔۔۔۔۔۔تو ہمارا اتنی رات گئے ایک لڑکی کے ساتھ کھڑا ہونا ہی جرم ثابت ہو گا۔۔۔۔پھر تیری دلیلیں وہاں کام نہیں آئیں گی”۔ وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے چلنے کے لیے کہتا ہے۔ “یار دو منٹ بس”۔ میں پھر سے لڑکی کی طرف متوجہ ہوتا ہوں:
“آپ کوا پنی عزت کی کوئی پروا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔آپ کے گھر والے آپ کو روکتےنہیں اس سے”؟
“صاب عزت کسے پیاری نہیں ہوتی ؟ مگر کچھ رشتے عزت سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں جن کو بچانے کے لیے عزت کی بازی ہارنی پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔رہا گھر والوں کا سوال توخدا نے کوئی ایسا رشتہ باقی نہیں چھوڑا جس کو میری وجہ سے بدنامی کا سامنا کرنا پڑے ۔۔۔۔۔بس ایک فالج زدہ ماں ہے جس کے وجود کی بقا کے لیے میں اپنا جسم بیچتی ہوں۔
باتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ دور سے ایک بی ایم ڈبلیو آتی دکھائی دے رہی ہے ۔ وہ مجھے سے کہہ رہی ہے : “صاب دعا کرنا کوئی گاہک مل جائے میری ماں ابھی تک بھوکی ہے”۔ گاڑی ہم سے کچھ فاصلے پر رکتی ہے وہ بھاگ کر شیشے کے سامنے جھکتی ہے، شیشہ نیچے ہوتا ہے گاڑی میں موجود شخص چند ایک باتیں کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔گاڑی کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔۔۔۔۔وہ گاڑی میں بیٹھ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔دروازہ بند ہوتا ہے ۔۔۔۔۔گاڑی چلنے لگتی ہے اور چلتے چلتے نظروں سے غائب ہوجاتی ہے۔ میں سوچوں میں گم وہاں کھڑا ہوں۔۔۔۔۔۔میرا دوست مجھے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کو کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔۔میرا دوست مجھے نصیحتیں کرتے ہوئے بائیک چلا رہا ہے مگر میں ابھی تک اُس لڑکی کے آخری الفاظ پر اٹکا ہو ا ہوں۔ “صاب دعا کرنا کوئی گاہک مل جائے میری ماں ابھی تک بھوکی ہے”۔ سوچ رہاہوں کہ دعا کروں یابد دعا کروں؟
تحریر : شاہ فیصل نعیم