تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
برٹش میوزیم لندن کے حیرت کدے میں ہم پچھلے کئی گھنٹوں سے غوطہ زن تھے شام سے پہلے معلوما ت اور یادوں کا بہت بڑا زخیرہ اپنے اپنے دامن میں سمیٹے اب ہم دریائے ٹیمز لندن برج پر آگئے تھے۔ جو لوگ کبھی اگر لندن گئے ہیں تو وہ اچھی طرح دریائے ٹیمز اور لندن برج کے شام کے منظر اور سحر سے واقف ہیں۔ جنت نظیر ایسا منظر کہ دنیا بھر کے سیاح شام کے وقت لندن برج پر سیلاب کی طرح اُمڈ آتے ہیں آج بھی مقامی اور سیاحوں کا سیلاب آیا ہوا تھا مارچ کا مہینہ سردی پورے جوبن پر تھی برفیلی ہوا ئیں دریائے ٹیمز کے منجمند ٹھنڈے پانی کی وجہ سے اور بھی یخ ہو گئیں تھیں۔
اِس لیے ہم بھی اِن برفیلی ہوا ئوں اور تقریباً منجمند فضا کی وجہ سے گرم ٹوپیاں ، مفلر ، گرم دستانے ہائی نیک جرسیاں اور گرم لونگ کوٹ پہن کر آئے تھے ۔ دنیا بھر کے سیاح اِس سحر انگیز منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے اِس سیاحوںمیں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی جو مذہبی اور معاشرتی اخلاقیات سے بے پرواہ اپنی ہی دنیا میں مگن تھے ۔ ہم برفیلی ہوائوں اور انسانو ں کے سمندر کو چیرتے ہوئے دریائے ٹیمز کے اُس خوبصورت گوشے کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں پر ایک دکھی بے بس لاچار ماں اپنی الم ناک داستان کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہی تھی ۔ ہم جلد ہی اُسی گوشے میں پہنچ گئے نور احمد اور حافظ نصیر احمد میرے ساتھی اُس عورت کو لینے چلے گئے اور میں دریا ٹیمز کے منظر کو enjoy کرنے لگا ۔ شام کے وقت لندن برج کی روشنیاں آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہیں ۔ اِس منظر نے مجھے اپنے حصار میں بُری طرح جکڑا ہوا تھا میں دنیا مافیا سے بے خبر روشنیوں کے اِس دریا میں گم تھا کہ اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تو میں اُس سحر نگری سے باہر آگیا ۔میں نے مُڑ کر دیکھا تو نوراحمد کافی کے گرما گرم مگوں کے ساتھ کھڑا تھا ۔ اُس نے کافی کا بڑا گرما گرم مگ میری طرف بڑھایا اور ساتھ آئی عورت کی طرف اشارہ کیا بھائی جان یہ وہ ماں ہے جو آپ سے ملنا چاہتی ہے۔
میں نے سردی سے بچائو کے لیے فوری طور پر گرم شیریں اور تلخ کافی کا بڑا سا گھونٹ اپنے حلق میں انڈیلا اور اُس عورت کی طرف متوجہ ہوا ۔ اُس عورت کو دیکھ کر مجھے لگا جیسے برٹش میوزیم کی حنوط شدہ لاش ممی میرے سامنے کھڑی ہوئی ہے ہڈیوں کا جال یا ڈھانچہ جس پر پتلی چمڑے کی کھال چڑھی ہوئی تھی ۔ اُس کی آنکھوں اور چہرہ بتا رہے تھے کہ وہ کسی ناقابلِ برداشت کرب اور درد میں مبتلا ہے اُس کے چہرے پر دکھ ، بے بسی ، لا چارگی بے پناہ تکلیف اور وحشت برس رہی تھی لگ رہا تھا کہ وہ کسی لا علاج پر اسرار بیماری کا شکار ہے جو اُسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے ۔ اُس کی آنکھوں اور چہرے پر وہ سرخی نہیں تھی جسے زندگی سے تعبیر کیا جا سکے ۔اُس کی حالت زار دیکھ کر ہم بھی بہت پریشان ہو گئے تھے ۔ آخر قریب پڑے لکڑی کے یخ ٹھنڈے بینچ پر میں اور وہ ماں بیٹھ گئے ۔ میرے اوپر وہ حالت طاری ہو چکی تھی جب میں کسی بے بس اور دکھی انسان کودیکھتا ہوں ۔ میں اُس کی طرف شفقت اور محبت بھری نظر وں سے دیکھ لیا تھا اور دل میں یہ دعا کہ کاش کسی طرح میں اِس کا درد اور غم کم کرسکوں ۔آخر میں اُس سے متوجہ ہوا اور کہا ماں جی بتائیں کیامسئلہ ہے آپ مُجھ سے کیوں ملنا چاہتی تھی میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں ۔ وہ اپنے اندرونی کرب کو ضبط کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی مگر اُس کی آنکھیں اور چہرہ شدید اندرونی کرب کا غماز تھے۔
وہ بولنے کی پوری کوشش کر رہی تھی لیکن اُس کے لرزتے کانپتے ہونٹوں سے الفاظ آزاد نہیں ہو رہے تھے کافی دیر کوشش کے بعد اُس نے لرزتی ہوئی آواز میں بولنا شروع کیا ۔ اُس کی زبان سے الفاظ اب ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو نا شروع ہو ئے ۔ اُس کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز سے میرا دل اور نبض ِ کائنات رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ سر کئی سال پہلے میری شادی ہوئی اور میں یہاں اپنے خاوند کے پاس آگئی جو عرصہ دراز سے یہاں رہ رہا تھااور یہاں کا نیشنل بھی ہو چکا تھا ۔ تین سالوں میں اللہ تعالی نے مجھے ایک بیٹی اور بیٹا عطا کیا اِن تین سالوں میں میں یہاں کی آزاد خیالی اور کلچر کو اچھی طرح بھانپ چکی تھی لہذا میں نے اور میرے خاوند نے فیصلہ کیا کہ بیٹی کی تربیت اور تعلیم یہاں کی بجائے پاکستان میں کریں گے اِس لیے جیسے ہی میری بیٹی کی عمر چار سال ہوئی میں اُس کو لے کر پاکستان شفٹ ہو گئی تاکہ یہاں کے مادر پدر آزاد معاشرے سے اُس کو بچا سکوں ۔ کیونکہ میں بچپن سے ہی مذہبی رحجان رکھتی تھی اِس لیے پاکستان جاکر اپنی بیٹی کو پہلے قرآن پاک حفظ کرایا اور پھر عالمہ کا کورس بھی کرایا اِس دوران میں نے یہ احتیاط کی کہ خود تو چند بار یہاں آئی اپنے خاوند کے پاس یا میرا خاوند پاکستان آجاتا لیکن بچوں کو کبھی بھی واپس نہ لائی ۔ اِسی دوران میری بیٹی نے گریجوایشن بھی کرلی۔
اِس دوران میری بیٹی پوری طرح مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی لہذا اب ہم نے فیصلہ کیا کہ اب اس کو ہم مزید تعلیم کے لیے برطانیہ لے جاتے ہیں ۔ لہذا میں اپنی بیٹی کے ساتھ یہاں آگئی اور بیٹی کو یونیورسٹی میں داخل کرا دیا مجھے یقین تھا کہ اب میری بیٹی مکمل اسلا م کے رنگ میں رنگی جا چکی ہے ۔ لیکن یہ میری غلط فہمی تھی ۔ صرف تین ماہ میں ہی یہ کسی ہندہ لڑکے کے ساتھ شادی کا تقاضہ کرنے لگی یہ اطلاع میرے اور میرے خاوند کے لیے کسی ایٹم بم سے کم نہ تھی ۔ ہم دونوں نے سمجھانے کی پوری کوشش کی اِس کے ہاتھ پائوں جوڑے روئے بہت منت سماجت کی لیکن اِس نے گھر چھوڑ دیا اور اُس ہندئو لڑکے سے شادی کر لی ۔ یہاں کے قانون کے مطابق ہم کچھ بھی نہیں کر سکے ہماری آنکھوں کے سامنے یہ غیر مسلم کے ساتھ شادی کر گئی اور ہم بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہ گئے۔
اِس شادی کو روکنے کے لیے میں در، در بھٹکی عاملوں ، بابوں کو بے شمار دولت لٹا ئی ساری ساری رات وظیفے چلے ّ کئے آج اِس کی شادی کو پانچ سال ہو چکے ہیں یہ دو بچوں کی ماں بن چکی ہے اِس کے بچوں کے نام ہندو ہیں ۔ ہم کچھ عرصہ تو اِس سے ناراض رہے پھر اِس امید پر صلح کر لی کہ شاید یہ اب ہی واپس آجائے ۔ لیکن ایسا نہ ہوا میری بیٹی نماز روزہ اور اسلامی عبادات چھوڑ چکی ہے ۔ جب میں اپنی بیٹی کو ہندو کے ساتھ دیکھتی ہوں تومجھے لگتا ہے میرے جسم کے ہزاروں ٹکڑے کر کے جہنم کی آگ میں پھینک دیا گیا ہو ۔ اُس کی داستان غم سن کر میری پلکیں بھی بھیگ چکی تھیں دکھ کی شدت سے اس کے کمزور بدن پر لرزا طاری ہو چکا تھا اُس کی آنسوئوں سے بھیگی آنکھوں میں التجا تھی فریاد تھی کہ میری بیٹی واپس کیسے آئے گی شدت غم سے اُس کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب پھوٹ پڑا اور وہ بار بار ایک ہی سوال کر رہی تھی سر میری عبادت ذکر اذکار وظیفے چلے برسوں کی نمازیں اور تہجد کے نوافل کدھر گئے میرے ہزاروں سجدے کہاں گئے۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956