تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
پاکستانی قوم کو آزاد ہوئے کئی سال گزرگئے یعنی 1947 ء سے لے کر 1948 ء تک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ بھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ 1948ء میں جناح صاحب کی اچانک وفات ہوگئی، جس کے بعد حکومت لیاقت علی خان کے ہاتھ میں سونپی گئی۔ 1951 میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ء سے 1958ء تک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ 1956ء میں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔مبصرین کا کہناہے کہ اسی طر ح اب پاکستانی قوم کے ساتھ مختلف” 5” طریقوں سے کھیل جارہے۔
1۔جس طرح سفید اور کالے رنگ کے 64خانوں والی شطرنج کی بساط پر 32مہروں کا کھیل سیاست سے بہت زیادہ ملتا جلتا ہے۔ جس طرح اس کے مہرے یعنی وزیر ، رخ، فیلے ، پیادے اور گھوڑے کبھی بھی سیاسی رخ بدل سکتے ہیں اسی طرح پاکستانی قوم کوسیاستدانوں نے اپنے سوچ کے مطابق رکھاہواہے کہ جب چاہیں جسے چاہیں انکے ساتھ کھیل سکیں۔2۔گزشتہ سال اسلام آباد ڈی چوک میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 14 اگست کو الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف10 لاکھ افراد کی ریلی نکالنے اور دھرنا دیا تھا۔ سانحہ ماڈل ٹائون لاہور لیکر عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری بھی میدان میں تھے۔جس پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا تھا کہ ہمارے ترقیاتی منصوبوں کے خلاف مارچ کئے جا رہے ہیں اور دھرنے دئیے جارہے ہیں،عوام دھرنے اور لانگ مارچ کو ناکام بنادیں اورمارچ کرنے والوں کا حقہ پانی بند کر دیں۔ لیکن دھرنے اور احتجاج کرنے والے ملک کو اندھیروں کی جانب لے جانا چاہتے ہیںلیکن ہمارے ترقیاتی منصوبے بند نہیں ہونگے جمہوریت کا پہیہ چلتا رہے گا مخالفین کو ناکامی ملے گی۔اوراس طرح سیاست دانوں نے بیانات میں قوم کاقیمتی وقت ضائع کیا۔
3۔دھرنوں اور اناکی سیاست میں مغلیہ دورکی تاریخ دوہرایاگیا جسے کہ ”مغلیہ سلطنت کے بارے میں بتایاجاتاہے کہ ایران میں شاہ اسماعیل صفوی (July 17,، 1487 ـ May 23,، 1524،) نے جب سنی مسلمانوں کا قتل عام کیا تو اس کی شیعہ علماء نے بھی مخالفت کی مگر شاہ اسماعیل نے ایک نہ سنی۔ ان حالات میں بابر نے فرار ہوکر ہندوستان میں پناہ لی اور اقتدار بھی حاصل کرلیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کو عیش و عشرت میں مبتلا ا ور فضولیات پر سرمایہ کے ضیاع میںسترہویں صدی کے آغاز میں دربار کے مصارف بہت بڑھ چکے تھے بادشاہ ثقافتی سرگرمیوں پر سرمایہ لٹارہے تھے۔ مگر انہوں نے زراعت کو نظر انداز کر رکھا تھا جن پر ان کی دولت کا انحصار تھا۔اسی طرح آج وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارودیگر حکمران عیش و عشرت میں مبتلا ا ور فضولیات پر سرمایہ کے ضیاع کررہے ہیں۔جس کی سزا پاکستانی قوم کو مل رہی ہے۔آج پاکستانی قوم قدرتی نہیں بلکہ حکمران کیے کی سزاملی رہی ہے۔
4سیلاب کسی بھی دریا یا جھیل میں موجود پانی کی وجہ سے تب پیش آتا ہے، جب کہ اس میں گنجائش سے زیادہ پانی بھر جائے اور اضافی پانی کناروں سے باہر بہہ نکلے۔چونکہ جھیلوں اور تالابوں میں پانی کی مقدار موسم اور برف کے پگھلاؤ سے مشروط ہوتی ہے اور ان قدرتی وسائل میں پانی کی سطح بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے، تو سیلاب عام طور پر اسی وقت اہمیت اختیار کرتا ہے جب یہ زرعی زمینوں اور شہری یا دیہی آبادیوں کو نقصان پہنچائے۔سیلاب دریاؤں میں بھی برپا ہو سکتے ہیں۔ جب پانی کا بہاؤ دریا کی قدرتی گنجائش سے بڑھ جائے اور خاص طور پر دریا کے موڑ یا نشیبی علاقوں میں اس کا پانی کناروں سے بہہ نکلے تو ایسی صورت کو تکنیکی لحاظ سے سیلاب کہا جاتا ہے۔ سیلاب اکثر آبادیوں، زرعی املاک اور جنگلات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصانات سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دریا کے ساتھ ساتھ تمام نشیبی علاقوں سے دور رہا جائے۔ چونکہ انسانی تہذیبوں میں یہ بات عام ہے کہ کاروبار، سہولیات اور سستی اور بروقت مواصلات کی وجہ سے دریاؤں کے نشیبی علاقوں میں آباد کاریاں کی جاتی ہیں۔
اس لیے انسانی آبادیوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سیلاب کی وجہ سے درپیش خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ 5۔موسم کے اعتبار اب پاکستان سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور حکمران اپنی نااہلیوں کو چھپانے کیلئے اب مختلف طریقوں سے پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔وزیرخزانہ اسحاق ڈارکی پالیسوں سے تاجربرداری سٹرکوں پر ہے اور غریب عوام بھوکے مررہے ہیں۔یہ کھیل ایسے وقت کھیلاجارہاہے جب عالمی بینک سے قرض لینے کیلئے کوشش کی جارہی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اگرہم اب بھی خواب غفلت سے نہ جاگے تو زوال کا یہ سیاہ دور طویل تر ہوتا جائے گا۔ ہمیں ہر سطح پر بیداری کی ضرورت ہے۔
زندگی کے ہرمیدان میں کام کرنیوالے عناصر کی حوصلہ افزائی اور ان کو تائید و تقویت دے کر اپنا قومی مزاج بدلنا ہوگا۔ خوشامدیوں، موقع و مفاد پرستوں، بدمحنتوں اور غفلت کیشوں کو پیچھے ہٹا کر اْمت مسلمہ کی قیادت کیلئے باشعور اور باعمل مسلمانوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ تب ہی ہماری قوم کا کلچربدلے گا، اور غیروں کے ظلم وتشدد سے ہمیں عافیت نصیب ہوگی۔ اس کیلئے سب سے پہلے احساس اور شعور کی ضرورت ہے، اس شعور کے نتیجے میں ہی قوت عمل کی تحریک پیداہوگی، تب آخرکار کامیابی مسلم اْمہ کا مقدر ٹھہرے گی۔
تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ