بلال غوری
کیا جلائو گھیرائو ،لاک ڈائون اور حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے سڑکوں پر نکلنا عوام کا غیر مشروط اور لامحدود جمہوری حق ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی؟یہ وہ سوال ہے جس نے تحریک انصاف کی حالیہ احتجاجی مہم کی کوکھ سے جنم لیا۔جب عمران خان بنی گالہ میں خودساختہ نظر بندی کے دوران پش اپ نکال رہے تھے اور ان کے کارکن گرفتار ہو رہے تھے تو انہوںنے ٹویٹ کی کہ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں بھی لاک ڈائون کا اعلان کیا گیا ہے مگر وہاں کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہوئی ۔یہ فرق ہوتا ہے جمہوریت اور بادشاہت میں۔گزشتہ چند روز کے دوران تین ممالک میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔چونکہ عمران خان نے جنوبی کوریا کی مثال دی اس لئے بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔مشرقی ایشیاکا جمہوریہ کوریا جنوبی ایشیا کے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے کئی حوالوں سے مماثلت و مشابہت رکھتا ہے۔پاکستان کی طرح بٹوارے اور تقسیم کا شکار ہوا،ہوس اقتدار کے باعث آمریت کی زد میں رہااور پاکستان کی طرح دفاع پر خطیر رقم خرچ کرتا ہے کیونکہ جس طرح ہمیں بھارت سے خطرہ رہتا ہے اسی طرح جنوبی کوریا اپنے ہمسایہ شمالی کوریا سے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔ساڑھے چھ لاکھ جوانوں پر مشتمل باقاعدہ فوج کے اعتبار سے جنوبی کوریا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔1948ء میں آزاد ہوا،1950 ء میں پہلی جنگ ہوئی جس میں دونوں طرف 12لاکھ افراد مارے گئے۔1960ء میں طلبہ انقلاب کے لئے سڑکوں پر نکلے جس کی آڑ میں جنرل پارک چنگ نے اقتدار پر قبضہ کر لیااور اس وقت تک قابض رہا جب تک قتل نہیں ہوا۔12دسمبر1979ء کو ایک اورڈکٹیٹر جنرل چون دوہوان مسلط ہو گیا جسے کوریائی باشندوں نے طویل جہدوجہد کے بعد رخصت کیا۔سیاسی عدم استحکام کے باوجود کوریا معاشی اعتبار سے آگے بڑھتا رہااور ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔آج جنوبی کوریا میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ اوسط عمر 85برس ہو چکی ہے اور جنوبی کوریا کا شمار دنیا کے چند خوشحال ترین ممالک میں ہوتا ہے۔جنوبی کوریا میں صدارتی نظام رائج ہے۔موجودہ صدر پارک جیون ہائے پر الزام یہ ہے کہ ان کے ایک دوست نے صدر مملکت سے قربت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ہفتہ کی شام سیئول میں ایک مشعل بردار ریلی نکلی جس میں پولیس کے مطابق 43000افراد شریک تھے جبکہ منتظمین کا دعویٰ ہے کہ شرکاء کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔عمران خان کے دعوے کے برعکس ان مظاہرین نے کبھی دارالحکومت کو بند کرنے کی دھمکی نہیں دی۔وہ مقامی انتظامیہ سے اجازت طلب کرتے ہیں ،شرائط طے ہوتی ہیں اور انہیں ایک مخصوص مقام پر احتجاج کرنے کی اجازت دیدی جاتی ہے۔ایک معتبرعالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پولیس نے صد ر مملکت کے خلاف احتجاج کے لئے جمع ہونے والے مظاہرین سے نمٹے کے لیئے 17600اہلکار تعینات کئے۔ایوان صدر جسے امریکہ کے وائٹ ہائوس کی طرح بلیو ہائوس کہا جاتا ہے اس کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا گیا تھا اور کسی شخص کو اس طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔مظاہرین طے شدہ وقت اور طے شدہ روٹ کے مطابق احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں اور گھروں کو لوٹ جاتےہیں۔
دوسری مثال برطانیہ کی ہے۔لندن میں ہر سال 5نومبرکو ملین ماسک مارچ ہوتا ہے۔گزشتہ سال ہونے والے مارچ میں مظاہرین نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا ،لندن پولیس پر بوتلیں پھینکیں جس سے تین اہلکار اور تین گھوڑے زخمی ہو گئے۔میٹروپولیٹن پولیس نے نہ صرف ان بلوائیوں کو شناخت کرکے گرفتار کیا بلکہ اس سال ہونے والے ملین ماسک مارچ کے لئے مزید کڑی شرائط عائد کر دیں۔اس سال ہفتہ کی شام جو مارچ ہوا ،میٹرو پولیٹن پولیس نے ضابطہ اخلاق جاری کیا کہ مظاہرین مقررہ وقت پر 6بجے مارچ کا آغاز کریں گے اور 9بجے تک پر امن طور پر منتشر ہو جائیں گے۔مارچ کا آغاز ٹرائیفلگر اسکوائر سے ہو گا اور مظاہرین نارتھ امبر لینڈ ایونیو ،وکٹوریا ایمبنکٹمنٹ ،برج اسٹریٹ ،پارلیمنٹ اسکوائر ،پارلیمنٹ اسٹریٹ سے ہوتے ہوئے وائٹ ہال تک جائیں گے۔10ڈائوننگ اسٹریٹ کے باالمقابل وائٹ ہال اور پارلیمنٹ اسکوائر کا وہ علاقہ جسے پولیس نے ’’کارڈن آف‘‘ کیا ہے اس طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔اگر کسی نے اس ضابطہ ء اخلاق کی خلاف ورزی کی تو قانون حرکت میں آئے گا۔یہ ملین ماسک مارچ بھی کرپشن کے خلاف تھااور جب مظاہرین سڑکوں پر نکلے تو جہاں جس کسی نے طے شدہ ضابطے کی خلاف ورزی کی،قانون حرکت میں آیا اور پولیس نے 53افراد کو گرفتار کر لیا۔
تیسرا ملک جہاں بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے اس کا نام انڈونیشیا ہے۔دارالحکومت جکارتہ میں لاکھوں افراد جمع ہیں اورمسیحی گورنر آہوک کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔گورنر آہوک نے ازراہ تفنن کہ دیا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ،یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو مگر اس کے باوجود مجھے ووٹ کیوں ملتے ہیں؟ اس بات کو توہین کا رنگ دیدیا گیا۔چونکہ یہاںاحتجاج کی وجوہات اور پس منظر مختلف ہے اس لئے حدود و قیود اور شرائط و ضوابط بھی الگ ہیں۔مگر ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ جکارتہ میں بیٹھے مظاہرین میں سے جس کسی نے احتجاج کو جلائو گھیرائو میں بدلنے کی کوشش کی،اس کے خلاف قانون حرکت میں آیا ۔نہ صرف ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں بلکہ متعدد مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا۔لیکن ہمارے ہاں جب قانون ریاستی اداروں کے تحفظ یا عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لئے حرکت میں آتا ہے تو اس پر حکمرانوں کی غلامی کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ماڈل ٹائون کے برعکس اس بار کوئی جانی نقصان بھی نہیں اٹھانا پڑااور پولیس مظاہرین کو روکنے میں کامیاب بھی رہی،اس کی وجہ شاید یہ ہے 17جون 2014ء کوسی سی پی او موقع پر موجود نہ تھے اور یکم نومبر 2016ء کو آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا خود برہان انٹرچینج پر کھڑے آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔کوئی بھی حق غیر مشروط یا لامحدود نہیں ہوتا۔دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں جہاں کہیں بھی احتجاج ہوتا ہے اس کی حدود و قیود طے ہوتی ہیں۔قانون ہاتھ میں لینے یا لاک ڈائون کرنے کی اجازت بہترین جمہوریت میں بھی نہیں ہوتی۔