تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس
اکثر آپ نے ہم سب نے دیکھا ہے کہ لوگ اپنے عادت یا عادات کو اگر کبھی نہیں بدلتے تو ہم انہیں ڈھیٹ بھی کہتے ہیں. انا پسند، خود پسند اور فرعونی مزاج کہتے بھی اور سمجھتے بھی ہیں .
اسے تکبر کہتے ہیں۔
لیکن وہاں کیا کیا جائے کہ جہاں ہمیں حکم ہے کہ اپنی ناکامیوں سے سیکھو . دوسروں کو اپنے سے اچھا سمجھ کر اپنے کاموں کو اپنی عادات اور مزاج کو بہتر بناؤ. جہاں جو بات کہو اس کی ذمہ داری قبول کرو . جہاں کسی کی دل آزادی ہو، وہاں فورا معذرت کر لو. اللہ کی پکڑ سے پہلے انسانوں سے اپنے رویئے کی تلافی کر لو . یہ آپ کو عظیم بناتا ہے . کہیں آپ کو گھٹاتا نہیں ہے .
چند روز قبل کسی سے بات کرنے کا موقع ملا تو ان کی زبانی کچھ گلے سن کر بے حد حیرت ہوئی . جو کچھ یوں تھے.۔
پہلے آپ نے فلاں کو اچھا کہا پھر برا بھی کہا ..
فلاں کے پہلے آپ مخالف تھیں بعد میں انہیں کیساتھ بیٹھ کر آپ نے تصاویر بھی بنوائیں اور انہیں اچھا بھی کہا . …
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو آپ کیساتھ بیٹھا ہے وہ اچھا ہے اور جو آپ کیساتھ نہیں بیٹھا تو وہ اچھا نہیں ہے ..وغیرہ وغیرہ
میں یہ سن کر حیران بھی ہوئی اور مجھے بات کرنے والے کی عقل پر بھی شبہ ہوا . سورج مشرق سے نکلتا ہے نہ یہ جھوٹ ہے، اور سورج مغرب میں ڈوب جاتا ہے یہ بھی جھوٹ نہیں ہو سکتا . اسی طرح انسان کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ جب وہ کسی کے ساتھ کسی کام میں شامل ہوتا ہے تو یا تو وہ اس کی عادات اور نظریات سے آگاہ ہوتا ہے یا متفق ہوتا ہے یا اچھا سمجھتا ہے . ..۔
لیکن جیسے ہی اسے اسکے ساتھ کام کا تجربہ حاصل ہوتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یا اس کی عادات کو مناسب نہیں سمجھتے یا نظریات نہیں ملتے یا اس سے متفق نہیں ہے یا اسے اس کے اصولوں سے یا عادات پر اعتراض ہے …
اس بنا پر اگر آپ کسی کیساتھ اپنا راستہ بدلتے ہیں تو ہر انسان کو اس بات کا حق حاصل ہے اس میں آپ کو یا ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اس کے فیصلے پر اعتراض کریں یا اس پر نقطہ چینی کریں . اعتراض اور نقطہ چینی کسی کی حق تلفی یا کسی کے ساتھ ناانصافی پر ہونا چاہیئے . جو کہ ہمیں کرنے کی توفیق نہیں ہوتی …
کیونکہ ہم سب سے متفق ہونے کے ڈرامے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم منافق ہو چکے ہیں۔
ہر روز ہمیں اپنا احتساب کرنے کا حکم ہے. ہرروز ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے . یہ ہی زندگی کا اصول ہے . میں نے کل جسے اچھا کہا تھا وہ اس وقت تک میرے نزدیک اچھا کام کر رہا تھا جب اس کے کاموں میں منافقت نظر آئی تو میں نے اپنا راستہ بدل لیا تو یہ میرا فرض تھا میں نے ٹھیک کیا . ورنہ ہم اپنے ضمیر کو کیا جواب دیں ؟
ہمیں یہ سوچنے کے بجائے کہ لوگ کیا کہیں گے کیا یہ سوچنا زیادہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ سے کیا کہیں گے؟؟؟
تو جس کے نزدیک اللہ کا خوف غالب ہے وہ لوگوں کو خوش کرنے کا کبھی کوئی فیصلہ نہیں لے گا کیوں کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی کل خدا کو میرے کسی فیصلے کے لیئے کا جوابدہ نہیں ہو گا . اس لیئے اگر آج میں نے یا ہم نے اپنے کل کی جانے والی کسی غلطی کی تصیح کی ہے تو اس کے لیئے نہ تو ہم شرمندہ ہیں اور نہ ہی معذرت خواہ . اپنے اچھے فیصلوں پر اپنے راستے کے صحیح تعین پر ہمیں فخر ہونا چاہیئے اور اللہ کا شکر گزار بھی کہ اس نے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائی۔
کوئی بھی انسان نہ تو سو فیصد صحیح اور مکمل ہوتا ہے اور نہ ہے سو فیصد غلط اور نامکمل ہوتا ہے ۔ اس لیئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ آپ ایک بات پر کسی سے متفق ہیں اور پھر کسی وقت میں اسی سے کسی بات کی مخالفت بھی کر رہے ہیں ۔ بلکہ یہ بات اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے پاس بھی ایک دماغ موجود ہے اوت آپ بھی اپنے دماغ کا استعمال بھی کرتے ہیں اور پانے فیصلوں کا اختیار بھی رکھتے ہیں ، ویسے بھی ذہنی طور پر غلام انسان میں ایسی صلاحیت ہو ہی نہین سکتی وہ کسی کی اطاعت کریگا تو بنا سوچے سمجھے کرتا ہی کچلا جائے گا ۔ اور مخالفت کرنے پر آئے گا تو کچھ سوچے سمجھے بنا ہی مخلفت کرتا چلا جائے گا ۔ جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس کا وجود ہی نہیں ، اس کی سوچ بھی غلامی کا طوق پہنے ہوئے ہے۔۔
تحریر: ممتازملک۔ پیرس